کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 491
وقتِ فجر کے سلسلے میں احناف کا مسلک: نمازِ فجرکے سلسلے میں یہ تو جمہور ائمہ کا مسلک ہے،جب کہ امام ابو خلیفہ رحمہ اللہ روشنی ہو جانے پر نماز فجر پڑھنے کو افضل سمجھتے ہیں۔امام ترمذی رحمہ اللہ کے بقول کئی صحابہ و تابعین بھی اس کے قائل تھے اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔[1] ان کا استدلال سنن ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،دارمی،معجم طبرانی کبیر،مصنّف ابن ابی شیبہ،معانی الآثار طحاوی اور مسند احمد میں متعدد طُرق اور ملتے جلتے الفاظ سے مروی حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿اَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ فَإِنَّہٗ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ[2] ’’صبح کی نماز روشنی میں پڑھو،کیوں کہ یہ زیادہ اجر والی ہے۔‘‘ غلس میں نماز پڑھنے پر دلالت کرنے والی احادیث کے کئی جوابات دیے گئے ہیں،جو سبھی مخدوش ہیں۔مثلاً یہ کہنا کہ شروع اسلام میں اندھیرے میں نماز پڑھنے کا حکم تھا۔پھر یہ منسوخ ہوگیا،جیسا کہ معانی الآثار میں امام طحاوی نے لکھا ہے۔[3] لیکن یہ دراصل محض ایک دعویٰ ہے،جس کی کوئی دلیل نہیں،بلکہ غلس میں نماز پڑھنے کی حدیث ثابت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے آخری وقت تک اسی پر عمل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر افضل فعل پر ہمیشگی نہیں کرتے تھے۔اندھیرے میں نماز پڑھنے پر تا دمِ واپسیں ہمیشگی کرنے پر دلالت کرنے والی احادیث ذکر کی جاچکی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک روشنی میں نماز پڑھنے کی تھی اور اس پر صحیح بخاری و مسلم میں مذکور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مردی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے،جس میں فرماتے ہیں: ﴿مَا رَأَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلّٰی صَلَاۃً بِغَیْرِ مِیْقَاتِھَا إِلَّا صَلَاتَیْنِ،جَمَعَ بَیْنَ
[1] سنن الترمذي مع التحفۃ(1/ 479) [2] سنن الترمذي مع التحفۃ(1/ 478) الفتح الرباني(2/ 279) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(409) سنن(534) سنن ابن ماجہ(672) و سنن الدارمي(1217) مشکاۃ المصابیح(1/ 194) الإرواء(1/ 281،283) [3] نصب الرایۃ(1/ 239،240)