کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 489
گیا،جن کی شہادت بھی اسی حادثے کے نتیجے میں رونما ہوئی اور زخمی کرنے والا بدبخت مسجد کے محراب ہی میں چھپا بیٹھا تھا۔ان حالات میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ مقرر ہوئے تو احتیاطاً کچھ عرصے کے لیے ذرا روشنی(اسفار) میں فجر پڑھنے لگے،لیکن جب حالات سُدھر گئے تو انھوں نے بھی معروف سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اندھیرے ہی میں نماز ادا کرنا شروع کر دیا،جس کا ثبوت مصنّف ابن ابی شیبہ میں مذکور دو آثار سے ملتا ہے،جن میں سے پہلے میں ابو سلمان(یزید بن عبدالملک) بیان کرتے ہیں:
’’خَدِمْتُ الرَّکْبَ فِيْ زَمَانِ عُثْمَانَ فَکَانَ النَّاسُ یُغَلِّسُوْنَ بِالْفَجْرِ‘‘[1]
’’میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ایک قافلے کی خدمت کی،وہ لوگ اندھیرے میں نمازِ فجر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
اس کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے،جسے عبداللہ بن ایاس اپنے والد کے حوالے سے بیان کر تے ہیں،جس میں ایاس فرماتے ہیں:
’’کُنَّا نُصَلِّيْ عُثْمَانَ الْفَجْرَ فَنَنْصَرِفُ وَمَا یَعْرِفُ بَعْضُنَا وُجُوْہہَ بَعْضٍ‘‘[2]
’’ہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نمازِ فجر پڑھا کرتے تھے،پھر جب(نماز کے بعد) ہم لوگ چلتے تو ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کے چہرے کو نہیں پہچان سکتا تھا۔‘‘
ان اور ایسی ہی دیگر احادیث و آثار کے پیشِ نظر امام ترمذی رحمہ اللہ کے بقول صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور کثیر صحابہ و تابعین کا یہی اختیار ہے کہ منہ اندھیرے ہی نمازِ فجر ادا کی جائے اور ائمہ میں سے امام شافعی،امام احمد،امام داود،امام ابو ثور اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے کہ اندھیر ے میں نمازِ فجر پڑھنا ہی مستحب فعل ہے۔[3]
امام ابن قدامہ نے ’’المغني‘‘ میں لکھا ہے کہ صحیح کی نماز اندھیرے میں پڑھنا ہی افضل ہے۔امام مالک،امام شافعی اور اسحاق رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ وہ اندھیرے میں
[1] مصنف ابن أبي شیبۃ بحوالہ إرواء الغلیل(1/ 279)
[2] حوالہ سابقہ أیضاً۔
[3] سنن الترمذي مع التحفۃ(1/ 474،475) بدایۃ المجتہد(1/ 139،140)