کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 488
سے مروی حدیث میں ہے: ﴿وَصَلَّی الصُّبْحَ مَرَّۃً بِغَلَسٍ،ثُمَّ صَلّٰی مَرَّۃً أُخْرٰی فَأَسْفَرَ بِھَا،ثُمَّ کَانَتْ صَلَاتُہٗ بَعْدَ ذٰلِکَ التَّغْلِیْسَ حَتَّیٰ مَاتَ وَلَمْ یَعُدْ إِلٰی أَنْ یُّسْفِرَ[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نمازِ فجر اندھیرے میں پڑھی اور پھر ایک مرتبہ روشنی میں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اندھیرے ہی میں پڑھتے رہے،یہاں تک کہ وفات پائی اور وفات پانے تک دورباہ روشنی میں کبھی نہیں پڑھی۔‘‘ خلفاے راشدین اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ اندھیرے ہی میں فجر کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ سنن ابن ماجہ و بیہقی اور معانی الآثار طحاوی میں مغیث بن سمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھی(جب کہ وہ روشنی پھیلنے پر پڑھتے تھے) جب وہ سلام پھیر چکے تو میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوا اور اُن سے کہا: یہ کیا نماز ہوئی؟ تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ھٰذِہِ صَلَاتُنَا کَانَتْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَأَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ‘‘ ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے ساتھ ہماری فجر کی نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی۔‘‘ آگے فرماتے ہیں: ’’فَلَمَّا طُعِنَ عُمَرُ،أَسْفَرَ بِھَا عُثْمَانُ‘‘[2] ’’جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو(نمازِ فجر کے دوران) زخمی کر دیا گیا تو اس کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے روشنی میں نماز پڑھنا شروع کر دی۔‘‘ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ابتداے خلافت میں روشنی ہوجانے پر نماز فجر پڑھی تھی،کیوں کہ حالات ہی کچھ ایسے تھے،جن میں حضرتِ فاروق رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا
[1] صحیح سنن أبي داود(1/ 80) و حسنہ الألباني،موارد الظمآن،رقم الحدیث(279) نصب الرایۃ(1/ 240) وقال في الإرواء(1/ 270) وقال الحاکم: صحیح،و وافقہ الذہبي،و صحیحہ الخطابي،وحسنہ النووي،وہو الصواب۔ [2] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(671) إرواء الغلیل(1/ 279) نصب الرایۃ(1/ 240)