کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 486
ہوتی ہے،لہٰذا اُسے سجدہ کہا گیا ہے۔‘‘[1] یہ آخری وقت محض مجبوری کی حالت میں ہے،ورنہ امام نووی نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ جان بوجھ کران اوقات تک نماز کو موخر کرنا جائز نہیں ہے۔[2] یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔اگر کبھی بعض ناگزیر حالات اور مجبوری میں اوّل وقت گزر جائے تو اس کے بعد آخری وقت تک نماز پڑھ لی جائے،محض لیٹ ہو جانے کی بنا پر چھوڑ نہ دی جائے،لیکن مسنون اور افضل طریقہ یہی ہے کہ نمازِ فجر اور دیگر نمازیں ان کے اوّل وقت ہی میں ادا کی جائیں،کیوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں ہمیشہ ہی اوّل وقت میں ادا فرمائی ہیں،سوائے ایک مرتبہ کے اور وہ بھی صرف جواز بتانے کے لیے تھا۔چنانچہ سنن ترمذی اور مسند احمد میں ایک حدیث ہے،جس کی سند کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’وہ متصل نہیں،اور اسے حسن غریب کہا ہے۔جب کہ وہی حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے اور ہے بھی موصولاً۔امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح بخاری و مسلم کی شرائطِ صحت کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔‘‘[3] علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی موافقت کی ہے،لہٰذا سنن ترمذی کی سند میں جو کمی تھی،وہ مستدرک حاکم والی سند سے پوری ہوگئی۔اسے امام زیلعی رحمہ اللہ نے ’’نصب الرایۃ‘‘ میں سنن دارقطنی اور بیہقی کی طرف بھی منسوب کیا ہے اور بعض محدّثین کا کلامِ جرح ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ﴿مَا صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلَاۃً لِوَقْتِھَا الْآخِرِ مَرَّتَیْنِ حَتَّیٰ قَبْضَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی[4] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نماز کو اس کے آخری وقت میں دو مرتبہ ہرگز نہیں پڑھا۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو اللہ تعالیٰ نے قبض کرلیا۔‘‘
[1] دیکھیں: نیل الأوطار(1/ 2/ 22) طبع بیروت۔ [2] تحقیق مشکاۃ المصابیح(1/ 193) [3] نصب الرایۃ(1/ 244) [4] سنن الترمذي مع التحفۃ(1/ 521،522) التلخیص(1/ 1/ 183) مشکاۃ المصابیح(1/ 193) نصب الرایۃ(1/ 244)