کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 485
’’یہ طریقہ جمع و تطبیق بھی محض ان کے اپنے مذہب کے موافق ہے،جب کہ حق یہ ہے(یعنی حقیقی جمع و تطبیق یہ ہے) کہ ممانعت والی احادیث عام ہیں اور تمام نمازوں کو شامل ہیں۔(فرض ہوں یا نفلی اور سببی ہوں یا بلا سبب) جب کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیثِ زیرِ بحث خاص ہے۔لہٰذا عام کو خاص کے ساتھ مقید کیا جائے گا،لہٰذا اس وقت کوئی بھی نماز جائز نہیں،سوائے اس کے جسے کوئی دلیل خاص دے،وہ چاہے سببی ہو یا غیر سببی۔‘‘[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے جو تفصیل بیان کی ہے،اس سے معلوم ہوا کہ جو حقیقی جمع و تطبیق ہے،اس کی رُو سے جس نماز کو کوئی حدیث خاص کر دے،وہ پڑھی جا سکتی ہے،دوسری نہیں،جب کہ طلوعِ آفتاب کے وقت ادا کرنے کے جواز کو صحیحین و سنن کی زیرِ بحث حدیث خاص کرتی ہے،لہٰذا اس کو اس وقت ادا کرنا جائز ہے اور بعینہٖ یہی معاملہ نمازِ عصر کا بھی ہے،جس کا اسی حدیث اور دیگر احادیث میں تذکرہ موجود ہے،مگر اس کے بارے میں اس کے موقع پر تفصیل ذکر کی جائے گی۔إن شاء اﷲ۔ صحیح مسلم،سنن نسائی،ابن ماجہ،بیہقی اور مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿مَنْ أَدْرَکَ مِنَ الْعَصْرِ سَجْدَۃً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَوْ مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَھَا[2] ’’جس نے غروبِ آفتاب سے پہلے نمازِ عصر کا ایک سجدہ یا طلوعِ آفتاب سے پہلے نمازِ فجر کا ایک سجدہ بھی پا لیا تو اس نے نماز کو پا لیا۔‘‘ [3] یہاں سجدے سے مراد بھی رکعت ہی ہے،جیسا کہ ’’منتقی الأخبار‘‘ میں علامہ مجد الدین نے لکھا ہے اور علامہ خطابی رحمہ اللہ نے ’’معالم السنن‘‘ میں لکھا ہے: ’’سجدے سے مراد رکوع و سجود سمیت پوری رکعت ہے اور رکعت مکمل ہی سجدوں کے ساتھ
[1] عون المعبود(2/ 83) و نیل الأوطار(2/ 25) [2] صحیح مسلم مع شرح النووي(3/ 5/ 105) الإرواء(1/ 272) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(536) عن أبي ہریرہ رضی اللہ عنہ،سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(700) لیکن اس میں((رکعۃً )) کے الفاظ ہیں۔المنتقی مع النیل(1/ 2/ 24) [3] فتح الباري(2/ 38) المنتقی مع النیل(1/ 2/ 25)