کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 483
وقت یہ بتایا گیا ہے کہ جب فجر کی روشنی خوب پھیل جائے،تب تک نمازِ فجر ادا کی جاسکتی ہے۔صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ﴿وَقْتُ صَلَاۃِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ[1] ’’صبح کی نماز کا وقت طلوعِ صبح صادق سے لے کر طلوعِ آفتاب تک ہے۔‘‘ جب کہ صحیح بخاری و مسلم،صحیح ابی عوانہ،سنن ترمذی،نسائی،بیہقی،دارمی،مسندِ احمد اور موطا امام مالک اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِّنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَ الصُّبْحَ[2] ’’جو شخص طلوعِ آفتاب سے قبل فجر کی ایک رکعت پڑھ لے تو اس نے نمازِ فجر کو پالیا۔‘‘ جب کہ بخاری شریف میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی ہیں: ﴿وَإِذَا أَدْرَکَ سَجْدَۃً مِّنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْیُتِمَّ صَلَاتَہٗ[3] ’’جس نے طلوعِ آفتاب سے پہلے پہلے ایک سجدہ بھی کر لیا،پس اسے چاہیے کہ اب اپنی نماز مکمل پڑھ لے۔‘‘ ان الفاظ میں سے((فَقَدْ أَدْرَکَ﴾ اس کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان الفاظ کا ظاہری معنیٰ مراد نہیں،کیوں کہ اس بات پر پوری امتِ اسلامیہ کا اجماع ہے کہ ایک رکعت کو پانے والا پوری نماز کو پانے والا نہیں کہ اسے صرف اسی ایک رکعت سے پوری نماز مل جائے اور اسے صرف ایک رکعت کافی ہو،بلکہ یہاں ان الفاظ کی تاویل کی گئی ہے اور یہاں بعض الفاظ کو محذوف تسلیم کیا گیا ہے،جو شامل ہوں تو اصل عبارت یوں ہو جاتی ہے: ’’فَقَدْ أَدْرَکَ حُکْمَ الصَّلَاۃِ أَوْ وُجُوْبَھَا أَوْ فَضْلَھَا‘‘[4]
[1] مختصر صحیح مسلم للمنذري،رقم الحدیث(205) مشکاۃ شریف(1/ 184) [2] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(579) صحیح مسلم مع شرح النووي(2/ 5/ 104،105) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(347) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(503) و سنن الدارمي،رقم الحدیث(1222) مشکاۃ المصابیح(1/ 19) المنتقیٰ مع النیل(1/ 2/ 24) الإرواء(1/ 273) [3] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 56) [4] شرح صحیح مسلم للنووي(3/ 5/ 105)