کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 465
اس واقعہ کو صحیح بخاری شریف کے ترجمۃ الباب میں ذکر کرنے اور اس کے بعد دیگر آثار نقل کرنے کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی خون کا نکلنا ناقضِ وضو نہیں،خون کو ناقضِ وضو نہ ماننے والوں کا اس واقعہ سے استدلال اس طرح ہے کہ اس صحابی کے جسمِ اطہر سے تین تیروں کے نتیجے میں ظاہر ہے،خون بہنے لگا۔بایں ہمہ وہ اپنی نماز میں پوری طرح مشغول رہے اور یقینا اس واقعہ کی خبر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی ہی ہوگی،کیوں کہ یہ تو نا ممکن ہے کہ اتنا بڑا واقعہ رونما ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر نہ پہنچے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو خون کے ناقضِ وضو ہونے کی شکل میں ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کرتے اور اسے اس کی نماز کے فاسد ہونے کا بتاتے اور اگر ایسا ہوتا تو یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کو ضرور ہی نقل فرماتے،جو امتِ اسلامیہ تک پہنچ جاتے،لیکن ان سب امور میں سے کسی کا بھی واقع نہ ہونا،اس بات کی دلیل ہے کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،خون تھوڑا ہو یا زیادہ۔اس واقعہ کے سامنے مسوڑوں کے خون کی حقیقت ہی کیا ہے؟ جب کہ پھنسی کے خون سے وضو نہ ٹوٹنے پر دلالت کرنے والے آثار بھی موجود ہیں۔
2۔ خون تھوڑا ہو یا زیادہ،ناقضِ وضو نہیں ہے،اس مسلک پر استدلال کرنے کے لیے دوسرا واقعہ موطا امام مالک،سنن دارقطنی اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں مذکور رہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو وہ اس زخمی حالت میں نماز میں مشغول رہے،جب کہ زخمی ہونے کی وجہ سے ان کے جسمِ مبارک سے خون جاری تھا۔اس واقعہ کی سند بھی فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول صحیح ہے۔[1]
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خون سے وضو نہیں ٹوٹتا۔اگر ایسا ہوتا تو حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ اس حالت میں نماز نہ پڑ ھتے رہتے اور یہ بات تو بعید از قیاس ہے کہ نمازِ پنج گانہ سے متعلق ایسا عام فہم مسئلہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اوجھل رہ گیا ہو۔
3۔ خون کے ناقضِ وضو نہ ہونے پر دلالت کرنے والا تیسرا واقعہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا ہے،جو صحیح بخاری کے مذکورہ ترجمۃ الباب میں تعلیقاً اور سنن
[1] موطأ الإمام مالک مع تنویر الحوالک للسیوطي(1/ 1/ 62) سنن الدارقطني مع التعلیق المغني(1/ 400) فتح الباري(1/ 281)