کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 457
اس سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا،کیوں کہ کسی صحیح و صریح اور مرفوع حدیث میں نکسیر سے وضو ٹوٹنے کا ذکر نہیں ملتا اور جن میں اس سے وضو ٹوٹنے کا ذکر ہے،وہ صحیح نہیں یا پھر مرفوع نہیں،بلکہ مرسل ہیں اور جمہور اہلِ علم کے نزدیک مرسل روایت کسی مسئلے میں حجت نہیں ہوتی۔ نکسیر کے ناقضِ وضو ہونے پر دلالت کرنے والی ایک روایت تو وہی ہے،جو سنن ابن ماجہ،دارقطنی اور مسندِ احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ﴿مَنْ أَصَابَہٗ قَیئٌ اَوْ رُعَافٌ۔۔۔الخ یہ مکمل روایت ترجمہ سمیت ہم قَے کے ضمن میں ذکر کر چکے ہیں اور یہ بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ متعدد ائمہ و محدّثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔بعض نے اس کا مرسل ہونا اقرب الی الصواب لکھا ہے،جب کہ جمہور کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہوتی،لہٰذا جب یہ حدیث مرفوعاً ثابت ہی نہیں تو نکسیر کا حکم بھی اپنی اصل حالت پر رہے گا اور وہ ہے عدمِ نقض اور اس حکم سے اسے نقض کی طرف لے جانے کے لیے کسی قوی دلیل کی ضرورت ہے،جو یہاں نہیں ہے۔ اسی طرح سنن دارقطنی،الکامل لابن عدی اور معجم طبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ﴿اِذَا رَعَفَ أَحَدُکُمْ فِيْ صَلَاتِہٖ فَلْیَنْصَرِفْ فَلْیَغْسِلْ عَنْہُ الدَّمَ،ثُمَّ لْیُعِدْ وُضُوْئَ ہٗ وَ لْیَسْتَقْبِلْ صَلَاتَہٗ[1] ’’تم میں سے جب کسی کی نماز کے دوران میں نکسیر پھوٹ پڑے تو اسے جاکر خون دھونا اور وضو دہرانا چاہیے،پھر نماز کی طرف آنا چاہیے۔‘‘ یہ روایت ضعیف ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سند میں سلیمان بن ارقم نامی راوی متروک ہے۔ایسے ہی سنن دارقطنی میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں بھی قے اور نکسیر سے وضو کرنے کا ذکر آ یا ہے،مگر اس کی سند کے ایک راوی ابوبکر کو متروک،کذاب اور وضاع قرار دیا گیا ہے،اس سند کے دوسرے راوی حجاج بن ارطاۃ پر کلام معروف ہے۔لہٰذا ضعیف ہونے کی وجہ سے وہ بھی قابلِ استدلال نہ ہوئی۔البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مصنف عبدالرزاق میں ایک قول مروی ہے،جس کی سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے۔ایسے ہی حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے بھی
[1] بحوالہ نیل الأوطار(1/ 1/ 223) نصب الرایۃ(1/ 42) و الضعیفۃ(2531) ضعیف الجامع،رقم الحدیث(620)