کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 448
نہیں ہے اور نہ یہ آیت ان کی دلیل بن سکتی ہے۔ اس مسئلے میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا رجحان شافعیہ کی طرح نقض کی طرف ہے اور ’’المحلّیٰ‘‘ میں انھوں نے بڑے زور و شور سے اس بات کو ثابت بھی کیا ہے۔[1] لیکن پوری تفصیل میں جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں احناف والا مسلک ہی راجح ہے۔ بدایۃ المجتہد: فقہ مقارن کی مشہور و معتبر کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں علامہ ابن رشد کا کہنا ہے کہ لمس کی دلالت اگرچہ دونوں معنوں یعنی محض چھونے اور جماع کرنے ہر دو کے لیے برابر کے قریب ہے،لیکن میرے نزدیک زیادہ ظاہر دلالت جماع کے لیے ہے،اگرچہ یہ مجازی معنیٰ ہے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مباشرت اور مس کے الفاظ کے ساتھ ہی جماع سے کنایہ کیا ہے۔مذکورہ آیت کی اس تفسیر سے وہ تعارض و اختلاف بھی ختم ہو جاتا ہے،جو اس آیت کی دوسری تفسیر اور احادیث میں پیدا ہوتا نظر آتا ہے۔ اپنی اس رائے کو ذکر نے سے پہلے علامہ ابن رشد نے مذکورہ مسئلے میں ائمہ و فقہا کے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ ان کے اختلاف کا سبب کلامِ عرب میں لفظِ لمس کا دونوں معنوں کے مابین مشترک ہونا ہے،کیوں کہ اہلِ عرب اس لفظ کو کبھی تو محض ہاتھ سے چھونے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی اس لفظ سے جماع کے لیے کنایہ کرتے ہیں۔ آگے بھی علامہ موصوف نے اس موضوع پر بڑی عمدہ بحث کی ہے،جسے۔مؤسسۃ الناصر للثقافۃ۔کی چار الگ الگ چھوٹے سائز کے چار اجزا والی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ کے(1/ 54،55،56) پر یا پھر دو جلدوں پر مشتمل دار المعرفہ بیروت والی معروف طباعت(1/ 37،38،39) میں دیکھا جاسکتا ہے،مختصر یہ کہ علامہ ابن رشد نے بھی عورت کو چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے ہی کو ترجیح دی ہے۔ قائلینِ نقض کی دوسری دلیل: جن ائمہ و فقہا نے کہا ہے کہ عورت کو محض چھونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے،ان کا استدلال بعض احادیث سے بھی ہے،مگر جس طرح ان کے اس مذکورہ آیت سے استدلال کرنے کی پوزیشن ہے،
[1] المحلّی(1/ 1/ 244،249) طبع المکتب التجاری،بیروت