کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 437
﴿کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّيْ وَأَنَا رَاقِدَۃٌ مُعْتَرِضَۃٌ عَلٰی فِرَاشِہٖ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یُّوْتِرَ أَیْقَظَنِيْ فَأَوْتَرْتُ[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے،جب کہ میں سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سورہی ہوتی تھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی بیدار کر دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔‘‘ 5۔ ان الفاظ سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ سامنے کوئی سویا ہوا ہو تو نماز ہوجاتی ہے۔اس حدیث کی شرح میں صاحبِ فتح الباری لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے یہ باب قائم کرکے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ سوئے ہوئے شخص کے سامنے نماز پڑھنے کی ممانعت کا پتا دینے والی احادیث ضعیف ہیں۔ان میں سے ایک حدیث سنن ابو داود اور ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،جس کے بارے میں خود امام ابو داود نے کہا ہے کہ اس کے تمام طُرق واہی ہیں۔اسی طرح ’’الکامل لابن عدي‘‘ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور ’’المعجم الأوسط‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایات بھی ہیں،مگر ان دونوں کی اسانید بھی واہی ہیں۔[2] 6۔ آگے چل کر ’’باب التطوع خلف المرأۃ‘‘ میں چھٹا مسئلہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ سامنے عورت لیٹی ہو تو نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ 7۔ ’’باب من قال: لا یقطع الصلاۃ شییٔ‘‘ میں ساتواں مسئلہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ کوئی چیز نماز نہیں توڑتی۔ 8۔ ایک باب میں آٹھواں مسئلہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ نماز کے دوران میں اگر عورت کے پاؤں وغیرہ سے چھو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے۔یہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب اس کی نماز صحیح ہے اور سجدے میں وہ عورت کو ہاتھ سے چھو کر پاؤں سمیٹنے کا کہہ سکتا ہے اور نماز جاری رکھ سکتا ہے تو پھر عورت کو چھونا ناقضِ وضو بھی نہیں ہوسکتا۔ 9۔ آگے چل کر ایک باب میں اسی حدیث سے اَخذ کیا گیا ہے کہ آدمی نمازِ تہجد کے وقت اپنی اہلیہ کو جگا سکتا ہے،جیسا کہ ’’باب إیقاظ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أھلہ بالوتر‘‘ سے پتا چلتا ہے۔[3]
[1] صحیح البخاري(1/ 587) [2] فتح الباري(1/ 587) [3] فتح الباري(2/ 487)