کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 415
تمھاری ہوا خارج ہوئی ہے،اس واقعہ کے بعد میں نے بیٹھے بیٹھے سونے والے شخص کے بارے میں اپنی رائے بدل لی۔(یعنی یہ رائے اختیار کرلی کہ اس طرح سونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اصل رعایت نیند کے غلبے اور اس کے دل پر قابو پاجانے کی کرنے لگا) [1]
محدثِ عصر علامہ البانی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے اور ’’تمام المنۃ في التعلیق علَیٰ فقہ السنۃ‘‘(ص: 00ا) میں لکھا ہے:
’’فَالْحَقُّ أَنَّ النَّوْمَ نَاقِضٌ مُطْلَقًا،وَلَا دَلِیْلٌ یَصْلُحُ لِتَقْیِیْدِ حَدِیْثِ صَفْوَانَ‘‘
’’حق بات یہی ہے کہ نیند مطلقاً ناقضِ وضو ہے اور حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے اطلاق کو مقید کرنے والی کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘
بلکہ اس حدیث کی تائید تو اس حدیث سے بھی ہوتی ہے،جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے،جس کی سند کو امام منذری،نووی اور ابن صلاح نے حسن قرار دیا ہے،جس کی تفصیل صحیح سنن ابو داود میں حدیث نمبر(198) کے تحت ذکر کی گئی ہے۔اس حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً ہر سونے والے کو وضو کرنے کا حکم فرمایا۔[2]
اُس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
﴿اَلْعَیْنَانِ وِکَائُ السَّہِ،فَمَنْ نَامَ فَلْیَتَوَضَّأْ﴾
’’آنکھیں جاے پاخانہ کا سر بند ہیں،پس جو شخص سو جائے اسے(ازسر نو) وضو کرنا چاہیے۔‘‘
یہ حدیث سنن ابو داود،ابن ماجہ،دارقطنی اور مسندِ احمد میں وارد ہوئی ہے۔[3]
مطلق نیند کے بارے میں دیگر علما کے اقوال:
نیند مطلقاً ناقضِ وضو ہے۔اس سلسلے میں بعض دیگر علما کے اقوال بھی ہیں،چنانچہ ’’فتح الباري‘‘ میں حافظ ابن حجر نے ’’باب الوضوء من النوم‘‘ کے تحت آنے والی حدیث کی شرح بیان کرتے
[1] التمہید(……)
[2] تمام المنۃ(ص: 100)
[3] صحیح أبي داود،رقم الحدیث(188) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(477) مسند أحمد(1/ 111) الإرواء(1/ 148) مشکاۃ المصابیح(1/ 103) و صححہ الألباني۔