کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 398
5۔خروجِ مذی: نواقضِ وضو میں سے ’’مَا خَرَجَ مِنَ السَّبِیْلَیْنِ‘‘ کے تحت ہی یہ بھی آتی ہے،لیکن یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ جماع و احتلام کی شکل میں جو مادہ منویہ(لذّت،شہوت اور ٹپک کے ساتھ) نکلتا ہے،جس سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے،اس(منی) کے خروج سے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔خواہ وہ خروج مذکورہ فطری طریقوں سے ہو یا غیر فطری ذرائع سے،اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نواقضِ وضو میں سے ’’مذی‘‘ سے مراد لیس دار مادے کا وہ قطرہ ہے،جو ملاعبت یعنی بوس و کنار کے نتیجے میں عضوِ تناسل سے نمو دار ہوتا ہے۔یہ نوجوان اور طا قتور شخص کے ساتھ خاص ہے۔اس کے خروج سے غسل واجب نہیں ہوتا،بلکہ اس کے بعد صرف استنجا اور وضو کر کے نماز ادا کی جاسکتی ہے،جیسا کہ بخاری شریف و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿کُنْتُ رَجُلًا مَذَّائً فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ أَنْ یَّسْأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔۔۔فِیْہِ الْوُضُوْئُ [1] ’’میں بکثرت مذی والاآدمی تھا تو میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں حکم پوچھیں،(تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:) اس میں وضو ہے۔‘‘ بخاری شریف ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے: ﴿تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَکَرَکَ مسلم شریف میں تقدیم و تاخیر کے ساتھ یوں مذکور ہے: ﴿اِغْسِلْ ذَکَرَکَ وَتَوَضَّأْ﴾ ’’قضیب کو دھو لو،یعنی استنجا کر لو اور پھر وضو کر لو۔‘‘ معنیٰ دو نوں کا ایک ہی ہے،البتہ مسلم شریف میں ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس حدیث میں تو صرف اتنا ہی مذکورہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو مذکورہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا،جب کہ صحیح بخاری ہی میں ایک دوسری روایت میں اس کا سبب بھی مذکور ہے۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ﴿لِمِکَانِ ابْنَتِہِ[2] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میری زوجیت میں ہونے کی وجہ سے۔‘‘
[1] صحیح البخاري مع الفتح(1/ 230) صحیح مسلم مع شرح النووي(1/ 3 / 121،213) بلوغ المرام مع السبل(1/ 1/ 65 بیروت( [2] صحیح البخاري مع الفتح(1/ 379(