کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 390
کر کے نماز شروع کر دیں اور ایک ہی وضو سے پوری نماز پڑھ لیں،اگر درمیان میں قطرے سے وضو ٹوٹتاہے تو ٹوٹتا رہے،اللہ تعالیٰ معاف کرے گا۔البتہ ایسا شخص ایک وضو سے دو نمازیں ادا نہیں کر سکتا،بلکہ ہر نماز کے لیے از سر نو وضو کرنا ضروری ہے۔[1] جب وضو کرلے تو شرم گاہ پر چھینٹا مارے،پھر مطمئن ہو کر نماز پڑھے،کیوں کہ وہ ایک شرعی عذر میں مبتلا اور مجبور ہے۔ایسے شخص کو مستحاضہ کے حکم میں شمار کیا گیا ہے۔مستحاضہ عورت جسے مخصوص ایام کے علاوہ بھی بیماری کی وجہ سے خون آتا رہتا ہے،اسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی نمازیں ادا کرنے کا حکم فرمایا تھا۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم،سنن ابی داود،ترمذی،نسائی،صحیح ابن حبان اور موطا امام مالک جیسی کتبِ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک صحابیہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کا واقعہ مذکور ہے،انھوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: ﴿إِنِّيْ لَا أَطْھُرُ،أَفَأَدَعُ الصَّلَاۃَ؟ ’’میں پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟‘‘ ان کا اشارہ مرضِ استحاضہ کی طرف تھا۔اس پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿إِنَّمَا ذٰلِکِ عِرْقٌ،وَلَیْسَ بِالْحَیْضَۃِ فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَیْضَۃُ فَاتْرُکِي الصَّلَاۃَ،فَإِذَا ذَھَبَ قَدْرُھَا فَاغْسِلِيْ الدَّمَ وَصَلِّيْ [2] ’’یہ ایک رگ ہوتی ہے،حیض نہیں۔جب ایامِ حیض آئیں تو نماز چھوڑ دو اور جب ایامِ حیض کے برابر عرصہ گزر جائے تو خون دھو دو(غسلِ حیض کرلو) اور نماز پڑھو۔‘‘ جب کہ ایک اور روایت میں ہے: ﴿ثُمَّ تَوَضَّئِيْ لِکُلِّ صَلَاۃٍ[3] ’’پھر تم ہر نماز کے لیے وضو کرو۔‘‘
[1] المغني(1/ 303) فقہ السنۃ(1/ 60) فتاویٰ علماے حدیث(1/ 74) فتویٰ دار الإفتاء جامعہ سلفیہ بحوالہ ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘(جلد 12 شمارہ 8( [2] صحیح البخاري مع الفتح(228) صحیح مسلم مع شرح النووي(4/ 161،17) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(261) صحیح سنن الترمذي(108) صحیح سنن النسائي(206،347) سنن ابن ماجہ(661) الموطأ مع المسویٰ(104( [3] صحیح البخاري مع فتح الباري(1/ 409) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(287) و الفتح الرباني(2/ 171) و جامع الأصول(7/ 363(