کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 386
نہایا تو مرجاؤں گا۔چنانچہ میں نے تیمم کیا اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔جب ہم مدینہ واپس آئے تو لوگوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے عمرو!((صَلَّیْتَ أَصْحَابَکَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟﴾ ’’تم نے جنابت کی حالت میں لوگوں کو نماز پڑھا دی؟‘‘ میں نے عرض کی: مجھے قرآنِ کریم کی سورۃ النساء کی آیت(29) یاد آگئی تھی،جس میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ’’اپنے آپ کو ہلاک مت کرو،بے شک اللہ تم پر رحم کرنے والاہے۔‘‘ اس لیے میں نے تیمم کرکے نماز پڑھا دی۔ بخاري شریف میں ہے: ﴿فلم یُغَنِّفْ﴾ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کوئی ملامت نہ کی۔‘‘ جب کہ دوسری مذکورہ کتب کے الفاظ ہیں: ﴿فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا [1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دیے اور مزید کچھ نہ فرمایا۔‘‘ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں،المجدابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں استدلال کیا ہے کہ متیمّم کے پیچھے متوضّی کی نماز اور متیمّم کی امامت صحیح ہے۔ صاحبِ فتح الباری نے اسی حدیث سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اجتہاد کے جواز پر استدلال کیا ہے۔مالکیہ نے متیمّم کے پیچھے نماز کو جائز،مگر مکروہ کہا ہے،جیسا کہ ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘(1/ 430) سے پتا چلتا ہے۔ مالکیہ کا یہ مکروہ کہنا کیا حیثیت رکھتا ہے؟ جب کہ موطا میں خود اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] صحیح البخاري مع الفتح(1/ 454) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(323) موارد الظمآن،رقم الحدیث(202) المنتقی مع النیل(1/ 258) إرواء الغلیل(1/ 181۔182) و صححہ الألباني(