کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 371
طہارت و مسجد پاتا ہے۔‘‘ مسند احمد کے الفاظ ہیں: ﴿فَعِِنْدَہٗ طَھُوْرُہٗ وَمَسْجِدُہٗ[1] ’’اس کی طہارت اور مسجد اس کے پاس ہے۔‘‘ امام بخاری نے اپنی صحیح کے ایک ترجمۃ الباب میں حضرت یحییٰ بن سعید انصاری سے تعلیقاً نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ﴿لَا بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ عَلٰی السَّبِخَۃَ وَالتَّیَمُّمِ بِھَا [2] ’’کلّر زمین پر نماز ادا کرنے اور کلّر سے تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ مذکورہ باب میں امام صاحب موصوف کا اس اثر کو نقل کرنا،اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ موصوف نے کلّر کو بھی مٹی کے حکم میں شمار کیا ہے۔علامہ ابن قیم جیسے بعض اہلِ علم نے ارضِ حجاز سے بھی استدلال کیا ہے کہ وہاں اکثر علاقوں میں ریت ہے یا پھر پتھریلی زمین ہے،لہٰذا ان ہر دو پر بھی تیمم جائز ہے نہ کہ صرف مٹی پر،جو حجا ز میں بہت کم یاب چیز ہے۔[3] مٹی کے علاوہ دیگر اشیاء سے تیمم کے سلسلے میں مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خاکسار کو اس میں شبہہ ہے۔‘‘[4] اس اختلاف کا سبب اور لفظِ ’’صعید‘‘ کی لغوی تشریح: اب آئیے اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کر ائمہ و فقہا کے مابین جو اختلاف پا یا جاتا ہے کہ بعض کے نزدیک ’’صعید‘‘ سے مراد صرف اور صرف مٹی ہے اور بعض دیگر کے نزدیک زمین اور اس کے تمام اجزا اس میں شامل ہیں۔اس اختلاف کا بنیادی سبب دراصل یہ ہے کہ ائمہ لغت کے نزدیک بھی اس لفظِ ’’صعید‘‘ کے لغوی معنیٰ کے بارے میں دونوں طرح کے اقوال موجود ہیں،لہٰذا اگر اس لفظ کی لغوی تشریح سامنے رہے تو اس اختلاف کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔چنانچہ امام ابن منظور نے عربی کی پندرہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ڈکشنری ’’لسان العرب‘‘(3/ 254) میں لفظِ ’’صعید‘‘ کی تشریح
[1] ’’زاد المعاد‘‘(1/ 200) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ [2] صحیح البخاري مع الفتح(1/ 446( [3] زاد المعاد(1/ 200( [4] فتاویٰ ثنائیہ(1/ 310) بحوالہ فتاویٰ علماے حدیث(1/ 125) نیز دیکھیں: المغني لابن قدامۃ(1/ 247(