کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 341
’’پھر نماز کا وقت ہوتے ہوئے ہی انھیں پانی مل گیا۔ان میں سے ایک نے تو وضو کر کے نماز دہرائی،مگر دوسرے نے اعادہ نہیں کیا،یعنی نماز نہیں دہرائی۔‘‘ جب وہ دو نوں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو انھوں نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا واقعہ سننے کے بعد جس نے نماز نہیں دہرائی تھی،اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: ﴿أَصَبْتَ السَّنَّۃَ،وَأَجْزَأَ تْکَ صَلَاتُکَ ’’تم نے سنت کو پا لیا اور تمھاری نماز ہوگئی۔‘‘ پھر دوسرے شخص سے مخاطب ہو کر(جس نے نماز دہرائی تھی) فرمایا: ﴿لَکَ الْأَجْرَ مَرَّتَیْنِ[1] ’’تمھارے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ اس حدیث کے الفاظ((اَصَبْتَ السُّنَّۃَ،واَجْزَأَتْکَ صَلَاتُکَ﴾ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نماز پڑ ھ چکنے کے بعد وقت ہوتے ہوئے بھی اگر پانی مل جائے تو تیمم والے پر واجب نہیں کہ وہ وضو کرے اور نماز کو دہرائے۔امام ابو حنیفہ،مالک،شافعی اور یحییٰ رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔[2] ایک تیسری صورت یہ ہے کہ پانی کی عدمِ موجودگی کی وجہ سے تیمم کرکے نماز شروع کرنے والا تھا کہ پانی مل گیا۔داود اور سلمہ بن عبد الرحمن کے سوا تمام فقہاے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک وہ شخص اب وضو کر ے اور پھر نماز پڑھے،کیوں کہ اس نے ابھی نماز شروع نہیں کی کہ پانی مل گیا ہے۔[3] اسی سلسلے کی ایک چوتھی صورت بھی ہے کہ پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے تیمم کیا اور نماز بھی شروع کر دی،مگر نماز مکمل کرنے سے پہلے ہی پانی حاصل ہوگیا۔اس شکل میں امام داود اور مالک رحمہما اللہ کا کہنا ہے کہ وہ نماز نہ توڑے،بلکہ پڑھتا رہے اور مکمل کرے،کیوں کہ سورت محمد(آیت: 33) میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ﴾[محمد: 33] ’’اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو۔‘‘ جب کہ امام ابو حنیفہ،اوزاعی،ثوری،مزنی(صاحبِ شافعی) اور ابن شریح رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ
[1] صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(327) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(420) المنتقی مع النیل 1/(1/ 265۔266) مشکاۃ المصابیح(1/ 166) التلخیص الحبیر(1/ 1/ 155۔156( [2] نیل الأوطار(1/ 1/ 266) و المرعاۃ(1/ 596( [3] نیل الأطار(1/ 1/ 266) و المرعاۃ(1/ 596(