کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 265
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ آئے دن وِگیں بدلنے والے مرد و زن تو کُجا،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کِسی ایسی عورت کو بھی دوسرے بال لگوانے یا بالفاظ دیگر وِگ لگانے کی اجازت نہیں دی،جس کے بال کِسی بیماری کی وجہ سے گرچکے ہیں اور خواہ وہ پہلی شب کی دُلہن ہی کیوں نہ ہو۔
5۔ صحیح بخاری و مسلم اور مسندِ احمد میں امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کِسی عورت نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول!میری بیٹی کو خَسرے کی بیماری لگنے سے اس کے بال گرگئے ہیں۔میں نے اس کی شادی کر دی ہے تو کیا میں اس کے بالوں کے ساتھ دوسرے بال جوڑ دوں؟‘‘ تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے بال جوڑنے اور جڑوانے والی عورت پر لعنت کی ہے۔‘‘[1]
6۔ صحیح بخاری ومسلم،سنن نسائی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب آخری مرتبہ مدینہ طیبہ آئے تو خطبے کے دوران میں انھوں نے بالوں کا ایک گُچھا نکالا اور فرمایا:
’’میں نے یہودیوں کے علاوہ کسی کو اس فعل(بال جوڑنے) کا ارتکاب کرتے نہیں دیکھا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کے جوڑنے کے اس فعل کو سراسر جھوٹ(دھوکا) قرار دیا ہے۔‘‘[2]
7۔ حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر اپنے ایک خادم کے ہاتھ سے بالوں کا گُچھا لے کر لہرایا اور فرما یا:
’’تمھارے علما کہاں گئے ہیں(جو تمھیں اس کے بارے میں شرعی حکم بتائیں؟)۔میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے اور یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے:
’’بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ان(مصنوعی جُوڑوں اور وِگوں) کا استعمال اپنایا تو وہ لوگ ہلاک ہوگئے۔‘‘[3]
[1] صحیح البخاري(10/ 378) صحیح مسلم مترجم اردو(5/ 332) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(1988) غایۃ المرام(ص: 79(
[2] صحیح البخاری مع الفتح(10/ 374) صحیح مسلم مترجم(5/ 334،335) و صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(4714) غایۃ المرام(ص: 79۔80(
[3] صحیح البخاري مع الفتح(5932) مختصر صحیح مسلم للمنذري بتحقیق الألباني،رقم الحدیث(1385) بحوالہ صحیح الجامع،رقم الحدیث(2375) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(3511(