کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 252
’’وَلاَ یَثْبُتُ فِيْ ہٰذَا شَيْئٌ‘‘ ’’اس موضوع کی کوئی مرفوع حدیث صحیح نہیں ہے۔‘‘
ان روایات میں سے سب سے صحیح تر وہ روایت ہے،جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،مگر وہ بھی قوی نہیں۔اس موضوع میں صرف فقہاے تابعین اور ان کے بعد والے ائمہ و فقہا کے اقوال ہی ہیں یا پھر ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً صحیح سند سے مروی ہے کہ انھوں نے پٹی پر مسح کیا ہے۔[1]
گویا امام بیہقی جیسے محدّثِ کبیر کے نزدیک اس موضوع کی مرفوع حدیث تو کوئی بھی صحیح نہیں،جس سے ثابت ہوتا ہو کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا یا ایسا کرنے کا حکم فرمایا۔البتہ آثارِ صحابہ و تابعین اور خصوصاً اثر ابن عمر رضی اللہ عنہما پر ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔امیر صنعانی رحمہ اللہ نے بھی ’’سبل السلام‘‘ میں ’’المسح عَلَی الْجبیرہ‘‘ کی مشروعیت کو قبول کیا ہے۔[2] اسی بنا پر شافعیہ،مالکیہ اور حنابلہ وجوبِ مسح کے قائل ہیں۔[3]
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے طُرق باہم مل جانے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ والی حدیث کی وجہ سے ان کے مجموعے کو قابلِ استدلال قراردیا ہے اور سید سابق بھی مشروعیت و وجوب ہی کے قائل ہیں۔[4]
’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھا ہے:
’’امام ابو حنیفہ،شافعی،فقہاے سبعہ اور بعد والے کثیر فقہا رحمہم اللہ مسح کے وجوب کے قائل ہیں،لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ پٹی طہارت کی حالت میں لگائی گئی ہو اور اس کے نیچے جسم صحیح سالم نہ ہو،سوائے اس کے جس کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہ ہو۔‘‘
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ کسی ایسے عضو پر،جس پر پلاسٹر لگا ہو،اس پر نہ تو مسح کیا جائے گا اور نہ اسے کھولا ہی جائے گا،بلکہ اسے ویسے ہی چھوڑ دیا جائے گا،کیونکہ یہ جبیرہ یا پلاسٹر ایک الگ عضو کی شکل میں ہے اور آیتِ وضو میں اس کے دھونے یا مسح کرنے کا
[1] تمام المنۃ(ص: 134۔135)
[2] سبل السلام(1/ 1/ 99)
[3] الفقہ الإسلامي للزحیلي(1/ 347)
[4] فقہ السنۃ(1/ 81)