کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 235
سنن اثرم کے حوالے سے امام ابنِ قدامہ نے ’’المغني‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی چاہے تو سر ننگا کر کے مسح کر لے اور اگر چاہے تو پگڑی یا ٹوپی پر مسح کر لے۔[1]
غرض کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ٹوپی پر مسح کے بارے میں کوئی قولی یا عملی حدیث ثابت نہیں،البتہ مطلقاً ٹوپی کا استعمال ثابت ہے،جیسے سترے کے باب میں مذکور ایک متکلم فیہ حدیث کے الفاظ((رُبَّمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ﴾ سے پتا چلتا ہے۔حضرت انس اور عمر رضی اللہ عنہما کے قول و عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص پگڑی کی طرح ہی ٹوپی کو بھی اٹھاکر سر کے کچھ حصے پر مسح کرکے بقیہ ٹوپی پر کرلے تو مسح ہو جائے گا۔علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا ہے۔[2]
عورتوں کے دوپٹے کا حکم:
خواتین کی چادر ہو یا دوپٹا،وہ انھوں نے سر پر باندھا ہوا تو ہوتا نہیں،لہٰذا اس کا اتارنا آسان ہوتا ہے،انھیں اسے اُتار کر سر ہی پر مسح کرنا چاہیے۔البتہ بعض خواتین کا جو یہ خیال ہے کہ وضو کرتے وقت سر کے بال ننگے نہیں ہونے چاہییں،ان کا یہ خیال درست نہیں،کیوں کہ سر کے بالوں کے ننگے ہوتے ہوئے وضو کرنا تو کجا غسل سے قبل سارے جسم کے ننگے ہوتے ہوئے کیا ہوا وضو بھی صحیح ہوتا ہے اور دورانِ غسل اگر کوئی دوسرا ناقضِ وضو فعل سرزد نہ ہو تو اسی وضو سے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔از سرِ نو وضو کرنا ضروری نہیں ہوتا،جیسا کہ سننِ اربعہ اور مستدرکِ حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں:
﴿کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لاَ یَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ﴾ [3]
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
گھر کے اندر یا صرف عورتوں کی موجودگی میں بالوں کا ننگا کر لینا جائز ہے اور غیر محرم مردوں کی موجودگی میں سر ننگا کر لینا منع ہے،تو ان کی موجودگی میں ظاہر ہے کہ وضو کا انداز بھی پردے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی اختیار کرنا ہوگا،لہٰذا دونوں صورتوں کا فرق واضح ہے۔
[1] المغني(1/ 304۔305)
[2] المحلی لابن حزم(1/ 2/ 58) المغني(1/ 304۔305)
[3] صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(246) صحیح سنن أبي داد،رقم الحدیث(225) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(93) سنن ابن ماجـہ(579) المستدرک(1/ 153) صححہ الترمذي و الحاکم و الذہبي والألباني کما في تحقیق المشکاۃ(1/ 139) و صحیح الجامع،رقم الحدیث(4843)