کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 226
کرنا نا ممکن ہے،کیوں کہ یہ تو سر میں بھی داخل ہے،جب کہ اسے غرہ کہا ہی نہیں جاتا۔‘‘[1] حفاظِ حدیث کی ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ آخری جملہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں،بلکہ کسی راوی کی طرف سے اِدراج ہے۔البتہ حافظ ابن حجر کے بقول ایک جماعتِ سلف اور اکثر شافعیہ و حنفیہ نے اِطالتِ غرہ کو مستحب قرار دیا ہے اور شیخ ابن باز نے بھی اِلاطتِ تحجیلکو مشروع قرار دیا ہے۔[2] 7۔انگلیوں کا خلال: ہاتھوں کو دھونے کے دوران میں انگلیوں کا خلال کرنا اور ایسے ہی پاؤں کو دھونے کے دوران میں پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا بھی سنت ہے اور قاضی عیاض کے بقول یہ واجب ہے۔[3] یہ خلال کئی احادیث سے ثابت ہے،جیسا کہ سنن ترمذی و ابن ماجہ،مسندِ احمد اور مستدرکِ حاکم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدَیْکَ وَرِجْلَیْکَ [4] ’’جب تم وضو کرو،تو ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں میں خلال بھی کرو۔‘‘ ہاتھوں کی انگلیوں کا خلال تو انھیں ایک دوسرے میں داخل کرنے سے بہ آسانی ہو جاتا ہے،جبکہ پاؤں کی انگلیوں کے خلال کا طریقہ بھی ایک حدیث میں موجود ہے۔چنانچہ سنن ابی داود،ترمذی،
[1] أعلام الموقعین(6/ 316) بحوالہ تمام المنۃ(ص: 92) إرواء الغلیل(1/ 132۔133) [2] فتح الباري بتعلیق ابن باز(1/ 236۔237) [3] نیل الأوطار(1/ 1/ 154) [4] المنتقیٰ مع النیل(1/ 1/ 153۔154) اس حدیث کی سند میں ایک راوی صالح ہے جو حافظے میں اختلاط ہو جانے کی وجہ سے ضعیف ہے۔مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے،کیوں کہ یہ موسیٰ بن عقبہ کی صالح سے روایت ہے اور اس کا سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔(نیل الأوطار 1/ 1/ 154) اور تحقیق المشکاۃ(1/ 128) میں شیخ البانی نے بھی اسے حسن کہا ہے اور امام ترمذی کی تحسین نقل کی ہے۔ایسے ہی سننِ اربعہ،صحیح ابن خزیمہ و ابن حبان،مسند احمد،مستدرکِ حاکم،سنن بیہقی،شافعی اور دارمی میں حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: مجھے وضو کے بارے میں بتائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((أَسْبِغِ الْوُضُوْئَ وَخَلِّلْ بَیْنَ الْأَصَابِعِ )) ’’وضو اچھی طرح کرو اور انگلیوں کا خلال بھی کرو۔‘‘ المشکاۃ مع المرعاۃ(1/ 471۔472) وقد صححہ جمع کبیر کما في المرعاۃ و تحقیق الألباني(1/ 138)