کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 208
ارادے سے ہی نیت ہوجاتی ہے،زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد في ہدي خیر العباد‘‘ میں بالتحقیق ذکر کیا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے شروع میں ’’نَوَیْتُ رَفْعَ الْحَدَثِ‘‘ جیسے الفاظ ہرگز ذکر نہیں فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں نے رفعِ حدث یعنی وضو کر نے کی نیت کی۔‘‘ اور نہ اس قسم کی نیت کسی صحابی سے ثابت ہے اور صرف یہی نہیں کہ یہ الفاظ کسی صحیح حدیث میں نہیں آئے،بلکہ لفظوں میں اس نیت کا ذکر تو کسی ضعیف حدیث میں بھی نہیں ملتا۔[1] شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ جو معروف بزرگ گزرے ہیں،بعض لوگ انھیں گیارھویں والے پیر صاحب بھی کہتے ہیں اور چاند کی ہر گیارھویں تاریخ کو ان کے نام کی گیارھویں کی نیاز دینے کی بدعت پر بڑی پابندی کا مظاہرہ کرتے ہیں،وہ جیلانی بزرگ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کے پہلے ہی باب میں نیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وَمَحَلُّھَاَ الْقَلْبُ‘‘ ’’نیت دل سے کی جاتی ہے۔‘‘ یعنی دلی ارادے کا نام ہی نیت ہے۔ اس سے آگے دلی ارادے کے ساتھ ساتھ موصوف نے زبان سے نیت کرنے کے استحسان کو بھی ذکر کیا ہے،مگر بے دلیل استحسان قابلِ قبول نہیں ہوتا اور بالآخر اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے: ’’وَإِنِ اقْتَصَرَ عَلٰی الْإِعْتِقَادِ أَجْزَأَہُ‘‘[2] ’’اگر دلی ارادے ہی پر قناعت کی جائے تو کافی ہے۔‘‘ بلکہ شرعی نقطہ نظر سے صرف یہی چاہیے کہ دل کے اراد ے ہی پر اکتفا کیا جا ئے اور یہی بات علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے ’’عمدۃ الرعایۃ حاشیۃ شرح الوقایۃ‘‘ میں بھی کہی ہے: ’’مَحَلُّھَا الْقَلْبُ‘‘ ’’نیت کا مقام دل ہے(نہ کہ زبان)۔‘‘ جب کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بہشتی زیور کے دوسرے حصے میں نماز کی شرطوں کے بیان میں مسئلہ نمبر(11) کے تحت یوں لکھا ہے: ’’زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں،بلکہ دل میں جب اتنا سوچ لیوے کہ میں آج ظہر کی نماز پڑھتی(یا پڑھتا) ہوں اور اگر سنت پڑھتی(یا پڑھتا) ہو تو یہ سوچ لے کہ ظہر کی سنت
[1] زاد المعاد(1/ 196) [2] غنیۃ الطالبین اردو مترجم مع عربی مولانا راغب رحماني دہلوی(ص: 18۔19) طبع نفیس اکیڈمی،کراچی۔