کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 157
اقسامِ حدث اور اَسبابِ غسل
صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث ذکر ہو چکی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
﴿لَا تُقْبَلُ صَلَاۃُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّیٰ یَتَوَضَّأَ﴾ [1]
’’جو آدمی ’’حادث‘‘ ہو جائے،اس کی اس وقت تک نماز قبول نہیں ہو تی،جب تک وہ وضو نہ کر لے۔‘‘
اس حدیث شریف میں((مَنْ أَحْدَثَ﴾ کے الفاظ میں ’’حدث‘‘ سے مراد سلیم الفطرت انسان کی وہ کیفیت ہے،جس میں وہ پیشاب،پاخانہ یا جماع وغیرہ سے فراغت کے بعد اپنے نفس میں ایک خاص قسم کا انقباض و تکدر اور گرانی و بے لطفی محسوس کرتا ہے اور جب وہی انسان استنجا و طہارت یا غسل کر لیتا ہے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر خو شبو لگا لیتا ہے تو اس کی طبیعت کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور ایک انشراح و انبساط اور سرور و فرحت کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔اسی دوسری حالت کا نام طہارت اور پاکیزگی ہے۔قول شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ جن کی فطرتِ سلیم اور جن کا وجدان صحیح ہے،وہ ان دونوں حالتوں اور کیفیتوں کے فرق کو واضح طور پر محسوس کر سکتے ہیں اور اپنی طبیعت و فطرت کے تقاضے سے حدث کی حالت کو ناپسند اور طہارت کی حالت کو پسند کرتے ہیں۔[2]
حدثِ اصغر:
وہ حدث جو روحانی کدورت و آلودگی کا باعث ہوتا ہے،جسے آپ ناپاکی بھی کہہ سکتے ہیں،اس کی فقہی کتب میں دو قسمیں یا دو درجے بیان کیے گئے ہیں۔
ایک ’’حدثِ اصغر‘‘ جس کے ازالے کے لیے صرف وضو کر لینا ہی کافی ہو جاتا ہے۔پیشاب،پاخانہ،خروجِ ہوا اور خروجِ مذی یا ودی حدثِ اصغر کے موجب ہوتے ہیں۔
[1] صحیح بخاري شریف مترجم اردو(1/ 163) صحیح مسلم مع النووي(3/ 104) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(54) مشکاۃ المصابیح(1/ 100)
[2] حجۃ اﷲ البالغۃ اردو(ص: 274)