کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 150
سنن ابی داود و نسائی و ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور مسندِ بزار میں خادمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو سمح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿یُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِیَۃِ وَیُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ﴾ [1]
’’لڑکی کا پیشاب دھویا جائے گا اور لڑکے کے پیشاب پر چھینٹا مارا جائے گا۔‘‘
جبکہ سنن ابو داود و ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ و ابن حبان،مستدرک حاکم اور طبرانی میں ام مغفل،حضرت لبانہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا،تو میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!
﴿اَعْطِنِیْ ثَوْبَکَ وَالْبَس ثَوْباً غَیْرَہٗ حَتَّیٰ اَغْسِلَہٗ﴾
’’اپنا یہ کپڑا مجھے دے دیجیے اور دوسرا کوئی کپڑا پہن لیجیے،تا کہ میں یہ دھو دوں۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الذَّکَرِ وَ یُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْأَنْثَیٰ﴾ [2]
’’شیر خوار لڑکے کے پیشاب پر چھینٹا دیا جاتا ہے اور لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح قبیلہ بنی خزاعہ کی ایک صحابیہ حضرت اُمِ کرز رضی اللہ عنہا کا بیان بھی دو الگ الگ روایتوں کی شکل میں سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں مذکور ہے،مگر اس کی سند میں انقطاع ہے۔[3]
صحاح و سنن کی احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے پیشاب پر چھینٹا مار دینا بھی کافی ہے اور لڑکی کے پیشاب کو دھو لینا ضروری ہے،جبکہ لڑکی اور لڑکے کے پیشاب کے سلسلے میں فرق کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں،جن کی تفصیل میں جانا باعثِ طوالت ہے۔
حلال جانوروں کے پیشاب اور پاخانے کا حکم:
انسان کے پیشاب کا حکم اور اس کی طہارت کا طریقہ بیان ہو چکاہے،جبکہ وہ جانور جن کا
[1] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(526) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(362) حسنہ البخاري کما في النیل و صحیح الجامع،رقم الحدیث(8117)
[2] صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(361) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(522) الموارد الظمآن،رقم الحدیث(247) مشکاۃ المصابیح(501) صحیح الجامع،رقم الحدیث(2383)
[3] نیل الأوطار(1/ 46)