کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 123
بنانا گوارہ نہیں کیا جاتا،جو انتہائی پست ذہنیت کی علامت ہے۔ سورۃ البقرہ(آیت: 28) میں کفّار سے عدمِ موالات کی تاکید کرنے کے بعد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی ذاتِ عظیم سے ڈراتا ہے۔‘‘ ایسا نہ ہو کہ چند روزہ اغراض و مقاصد کی خاطر موالاتِ کفّار میں مبتلا ہوکر اللہ کو ناراض کر بیٹھو اور چونکہ موالات کا تعلّق دل سے ہے اور دل کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا،اس لیے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص حقیقت اور واقع میں تو کفّار کی محبت میں مبتلا ہو،مگر زبانی انکار کرے۔لہٰذا آلِ عمران(آیت: 29) میں فرمایا: ﴿قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ وَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ’’کہہ دیجیے(اے میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم!) تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا ظاہر کرو،اللہ تعالیٰ تو اُسے بہرحال جانتا ہی ہے اور جو کچھ ارض و سما میں ہے،اسے سب معلوم ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ 1۔کفّار ومشرکین کی تقلید اور پَیروی: احکامِ الٰہی کی بنیاد پر یہ مسئلہ طے ہوجانے کے بعد کہ کفّار ومشرکین کے ساتھ موالات منع ہے،اس بات کا فیصلہ کرنابہت آسان ہو جاتا ہے کہ ان(کفّار ومشرکین) کی عادات و اطوار،گُفتار و کردار،خوراک وپوشاک اور خور و نوش کے انداز کی پَیروی کرنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟ یہ سب امور بھی یقینی طور پر ناجائز اور قطعی منع ہیں۔اہلِ علم نے قرآن وسنت کے دلائل کی بنا پر کفّار کی تقلید اور پیروی کو گناہِ کبیرہ شمار کیا ہے۔[1] کیوں کہ قرآن کریم کی سورۃ الجاثیہ(آیت: 18) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ’’(اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) ہم نے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دین کے معاملے میں ایک شریعت پر
[1] تطہیر المجتمعات(ص: 295۔299)