کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 112
ناجائز ہے،اس کی کیا وجوہ بیان کی گئی ہیں؟ اگر اسی نہج پر سوچا جائے تو غیر مسلموں کے لیے کوئی وجہ شکایت باقی نہیں رہتی اور نہ آیات و روایات ہی میں کسی قسم کا اختلاف رہ جاتا ہے۔چنانچہ تفسیر معارف القرآن جلد دوم میں سورت آلِ عمران(آیت: 28) کی تفسیر کے ضمن میں لکھا ہے: ’’بات دراصل یہ ہے کہ دو جماعتوں یا دو شخصوں کے مابین باہمی تعلقات کے چار مختلف درجے ہوتے ہیں۔پہلا موالات۔دُوسرا مواسات۔تیسرا مدارات اور چوتھا درجہ ہے معاملات۔‘‘[1] 1۔موالات: ان درجات میں سے جو پہلا درجہ موالات ہے،اس کا معنیٰ ہے: ’’کسی کے ساتھ دل کی گہرائی سے محبت و مودّت رکھنا۔‘‘ یہ صرف مومنوں،مُسلمانوں کے ساتھ ہی خاص ہے،کسی غیر مومن اور غیر مسلم کے ساتھ مسلمانوں کا یہ دِلی تعلّق کسی حال میں قطعاً جائز نہیں۔قرآنِ کریم کی جتنی آیات ہم پیش کرچکے ہیں،ان سے مُراد اسی تعلّقِ خاطر کی ممانعت ہے۔ 2۔مواسات: باہمی تعلقات کی مختلف نوعیتوں میں سے دُوسرا درجہ مواسات کا ہے،جس کا معنیٰ ہے: ’’ہمدردی و خیر خواہی اور نفع رسانی کا رویہ اپنانا اور سلوک کرنا۔‘‘ اہلِ حرب یا مسلمانوں کے ساتھ برسرِ جنگ کفّار ومشرکین کو چھوڑ کر باقی تمام غیر مسلموں کے ساتھ یہ تعلّق رکھنا جائز ہے،کیوں کہ اٹھائیسویں پارے کی سورۃ الممتحنہ جس کی پہلی ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں کے ساتھ موالات یا دِلی تعلّقات استوار کرنے سے روکا ہے اور مومنوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے: (یٰاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ﴾[الممتحنۃ: 1]
[1] معارف القرآن مفتی محمد شفیع(2/ 50(