کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 8
کرلیتے۔ جیسا کہ غزوہ بدر اور احد میں ہوا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور ان امور کے بارے میں پوچھتے جن کا انھیں علم نہ ہو اور آپ سے ان نصوص کے معانی کے بارے میں استفسار کرتے جو ان پر مخفی رہ گئے ہوتے۔ اور جو انھیں ان نصوص سے سمجھ آئی ہوتی آپ کے سامنے پیش کرتے تو کبھی آپ انھیں ان کے فہم پر برقرار رکھتے اور کبھی ان کے خیال میں غلطی کے مقام کی نشاندہی فرما دیتے۔
وہ عام قواعد کہ جنھیں اسلام نے وضع کیا تاکہ مسلمان ان کی روشنی میں چلیں ، درج ذیل ہیں :
۱۔ ان واقعات کے بارے میں بحث کی ممانعت جو ابھی وقوع پذیر نہ ہوئے ہوں ، تاوقتیکہ وہ واقع ہوجائیں :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾ (المائدۃ: 101)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی اب تک جو کچھ تم نے کیا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور برد بار ہے۔‘‘
حدیث میں ہے کہ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اغلوطات سے منع فرمایا اور یہ وہ مسائل ہیں جو ابھی وقوع پذیر نہ ہوئے ہوں ۔‘‘
۲۔ زیادہ سوالات اور گنجلک مسائل سے اجتناب برتنا:
حدیث میں ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قیل و قال ، کثرت سوال اور مال ضائع کرنے کو ناپسند فرمایا ہے۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں اس لیے