کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 54
داڑھی فطرت کے امور میں شامل ہے۔ اور فطرت میں علاقوں کے مختلف ہونے سے تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی کلچر ہے اور کلچر مختلف ہوتا ہے تو وہ غلطی پر ہیں ۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ظاہر کے امور کا اہتمام نہیں کرتا اور داڑھی انہی امور میں شامل ہے۔ یہ لوگ ان احادیث کی صریح خلاف ورزی کررہے ہیں جن میں لباس اور بالوں وغیرہ کے لیے اصول بتائے گئے ہیں ۔ ان میں سے کچھ میں اسلام میں اتنی سختی ہے کہ خلاف ورزی پر لعنت کا مستحق بھی قرار دیا گیاہے۔
۷۔ جب بال گھنے ہوجائیں اور چھوڑ دئیے جائیں تو تیل لگا کر اور کنگی کرکے ان کا اکرام کرنا، کیونکہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جس کے بال ہوں اسے ان کی عزت کرنی چاہیے۔‘‘ رواہ ابو داؤد۔ عطابن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس کے بال اور داڑھی پراگندہ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کیا گویا اسے بالوں اور داڑھی کی اصلاح کا کہہ رہے ہوں ۔ تو اس نے ایسا کیا اور پھر واپس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کیا یہ اس بات سے بہتر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی اس حالت میں آئے کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہوں گویا کہ وہ شیطان ہے۔‘‘ رواہ مالک۔ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ ان کے بال گھنے اور کندھوں تک آرہے تھے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ انھیں درست کرنے کی تلقین فرمائی۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ وہ ہر روز کنگی کیا کریں ۔‘‘ رواہ النسائی۔ اور مؤطا میں امام مالک نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ’’ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرے جمہ بال ہیں تو کیا میں ان میں کنگی کرلیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ ہاں ۔۔ ۔ اور ان کا اکرام بھی کیجئے۔‘‘ تو ابو قتادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ’’ اور ان کا اکرام بھی کیجئے ‘‘ کی وجہ سے کبھی دن میں دو مرتبہ بھی ان میں تیل لگا لیا کرتے تھے۔ ‘‘