کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 53
اور زیر ناف بال صاف کرنے میں وقت متعین کیا کہ انھیں چالیس راتوں سے زیادہ باقی نہ رکھا جائے۔‘‘ رواہ احمد وابو داؤد وغیرھما۔ کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ اجماع سکوتی سے مراد یہ ہے کہ مجتہد دین کے بارے میں کوئی بات کہیں اور وہ مشہور بھی ہوجائے اور دیگر مجتہدین اس پر تنقید نہ کریں ۔کچھ لوگ نے اس اجماع سے بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حج کے موقع پر داڑھی کٹوانے پر بھی یہ لوگ اجماع سکوتی کا دعوی کرتے ہیں ۔ دلائل کا وزن پرکھتے ہوئے اپنی رائے قائم کیجئے۔ ۶۔ داڑھی کو چھوڑ دینا اور نہ کٹوانا حتی کہ وہ گھنی ہوجائے، اس حیثیت میں کہ وہ وقار کا مظہر ہو۔ اس لیے نہ ہی اتنی کاٹی جائے کہ وہ حلق کے قریب جالگے اور نہ ہی اتنا چھوڑا جائے کہ حد سے بڑھ جائے۔ بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے کیونکہ میانہ روی ہر کام میں مستحسن ہوتی ہے۔ پھر بات یہ بھی ہے کہ داڑھی مردانگی تکمیل اور اتمام ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ مشرکوں کی مخالفت کیجئے، داڑھی کو بڑھائیے اور مونچھوں کو پست کیجئے۔‘‘ متفق علیہ۔ بخاری نے یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں ’’ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنے داڑھی کو مٹھی میں لیتے اور جو زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے۔‘‘ تمام المنہ میں شیخ البانی نے داڑھی کے متعلق کچھ نکات بیان کیے ہیں ، جن کی تلخیص ذیل میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے۔ اور حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ مردوں کا عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔ اس لیے داڑھی منڈھوانا حرام قرار پائے گا اور اسے بڑھانا ضروری۔ عورتوں کے لیے پلکوں کے بال اکھاڑنا ممنوع ہے، اسے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔ خواتین ایسا حسن کے لیے کرتی ہیں تو مرد اگر حسن کے لیے چہرے کے بال مونڈھ لیں تو وہ بھی اسی ضمن میں آئیں گے۔