کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 45
لیکن یہ ترمذی کی حسن درجہ کی روایت سے ثابت ہیں :
((عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَتْرُ مَا بَیْنَ اَعْیُنِ الجِنِّ وَعَوْرَاتِ بَنِی آدَمَ: إِذَا دَخَلَ اَحَدُہُمُ الخَلَائَ، اَنْ یَقُولَ: بِسْمِ اللّٰہِ۔))
۴۔ ہر کلام سے رک جائے خواہ وہ ذکر ہو یا کچھ اور۔ اس لیے وہ سلام کا جواب دے گا اور نہ ہی مؤذن کا جواب۔ ہاں ایسی بات کرسکتا ہے جو لا بد ہو۔ مثلا نابینا کی رہنمائی کرنا کہ جس پر اسے کہیں گرنے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر اس دوران اسے چھینک آجائے تو وہ اپنے دل میں اللہ کی حمد بیان کرلے اپنی زبان کو حرکت نہ دے۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کررہے تھے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا لیکن آپ نے اسے جواب نہیں دیا۔‘‘ رواہ الجماعۃ إلا البخاری
اور ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ دو شخص نکلتے ہیں ، قضاء حاجت کے لیے جاتے ہیں ان کی شرم گاہیں ننگی ہوتی ہیں اور وہ باتیں کررہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔‘‘ رواہ احمد وابو داؤد وابن ماجہ۔ حدیث کا ظاہر بتا رہا ہے کہ کلام کرنا حرام ہے۔ البتہ اجماع نے نہی کو تحریم سے کراہت میں بدل دیا ہے۔
۵۔ وہ قبلہ کی تعظیم کرے وہ اس طرح کہ قبلہ رخ ہو اور نہ اس کی طرح پیٹھ کرے۔ کیونکہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جب کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تو وہ قبلہ رخ ہو اور نہ ہی اس طرح پیٹھ کرے۔‘‘ رواہ احمد ومسلم۔ یہ نہی کراہت پر محمول ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ میں ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی جانب پیٹھ کیے ہوئے اور شام کی جانب منہ کیے ہوئے قضائے حاجت کررہے ہیں ۔‘‘ رواہ