کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 42
گیا ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کی جائے تو یہ صیغہ تمریض یعنی روایت کے سندا کمزور ہونے کا بتلاتا ہے۔ ۲۔ اگر کسی شخص پر کوئی چیز گر جائے کہ اسے علم نہ ہو کہ آیا وہ پانی ہے یا پیشاب اس پر ضروری نہیں ہے کہ دریافت کرے۔ اور اگر اس نے پوچھ ہی لیا تو جس سے پوچھا گیا ہے پر ضروری نہیں ہے کہ اسے جواب دے اگرچہ اسے علم ہو کہ یہ چیز نجس ہے۔ اور نہ ہی اس پر اسے دھونا ضروری ہے۔ ۳۔ جب پاؤں یا پلو پر رات کوئی تر چیز لگ جائے اور اسے علم نہ ہو کہ یہ کیا ہے تو اس پر ضروری نہیں ہے کہ اسے سونگھے اور پہچاننے کی کوشش کرے کہ یہ کیا ہے۔ کیونکہ مروی ہے کہ ’’ عمر رضی اللہ عنہ ایک دن کہیں سے گزرے تو ان پر پرنالے سے کچھ گر گیا۔ ان کے ساتھ ان کے ایک ساتھی بھی تھے تو اس نے پوچھا کہ اے پرنالے والے یہ پانی پاک ہے یا نجس؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسے جواب مت دیجئے گا۔ اور پھر چل دئیے۔‘‘ ۴۔ رستے کی مٹی سے کچھ لگ جائے تو اسے دھونا ضروری نہیں ہے۔ کمیل بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ بارش کی مٹی میں چل رہے تھے پھر مسجد میں داخل ہوئے اور نماز پڑھی اور اپنے پاؤں کو نہیں دھویا۔ کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ کُمیل بن زیاد النخعی کا شمار کبار تابعین میں ہوتا ہے۔ عابد اور متقی شخص تھے، جنگ صفین میں علی رضی اللہ عنہ طرف سے میدان میں آئے۔ ان کا شمار شیعان علی رضی اللہ عنہ میں ہوتا ہے۔ آپ عمر، عثمان، علی اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہم سے روایات لیتے ہیں ۔ ۸۲ ہجری میں ان کو حجاج نے قتل کروا دیاتھا۔ ۵۔ جب کوئی شخص نماز سے پلٹے اور اپنے کپڑوں یا بدن پر نجاست دیکھے جس کا اسے علم نہیں تھا۔ یا وہ جانتا تو تھا لیکن اسے بھول گیا تھا یا بھولا تو نہیں تھا لیکن اسے زائل کرنے سے عاجز آگیا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر اعادہ نہیں ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: