کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 4
﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ:185)
’’اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے، تنگی کا ارادہ نہیں کرتا۔‘‘
اور فرمان ہے کہ
﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج: 78)
’’ اور دین میں تم پر اللہ تعالیٰ نے کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
یہ حدیث ابو سعید المقبری رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ البتہ ابو سعید کے بیٹے سعید ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں ۔
بخاری میں ابو سعید المقبری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ یہ دین آسانی کا دین ہے اور جو بھی اس کے مد مقابل آئے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔‘‘
اور مسلم میں مرفوعا مروی ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے یہاں ابراہیم علیہ السلام والا اور نرم دین پسندیدہ ہے۔‘‘
کیا آپ جانتے ہیں کہ صیغہ تمریض کیا ہوتا ہے؟ اگر کسی روایت کو رُوِیَ یعنی ’’بیان کیا گیا ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کی جائے تو یہ صیغہ تمریض یعنی روایت کے سندا کمزور ہونے کا بتلاتا ہے۔
۲۔ وہ احکام کہ جو زمان ومکان کے بدلنے سے نہیں بدلتے مثلا عقائدو عبادات، ان کا بیان تفصیلی ہے۔ اور ان کی وضاحت ان کا احاطہ کرنے والے واضح دلائل کے ساتھ ہے۔ اس لیے کسی ایک کے لیے جائز نہیں ہے کہ ان میں بیشی کرے یا اس سے کمی کرے اور جو احکام زمان و مکان کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں مثلا تمدنی مصلحتیں اور سیاسی وجنگی امور، وہ مختصرا بیان ہوئے ہیں تاکہ تمام زمانوں میں وہ لوگوں کے مفادات سے میل کھائیں اور حق وعدل کو قائم کرنے کے لیے حکمران ان سے رہنمائی لیں ۔
۳۔ اس میں موجود تعلیمات سے مقصود دین، جان، عقل، نسل اور مال کی حفاظت ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ یہ چیز فطرت سے مناسبت رکھتی ہے اور عقل کا ساتھ دیتی ہے اور