کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 37
اشیاء کی صفت قطعی طور پر حسی نجاست نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ﴾ (حج:۳۰)
’’ پس بتوں کی گندگی سے بچو ۔‘‘
بتوں کی نجاست معنوی ہے کیونکہ انھیں چھونے سے کوئی نجس نہیں ہوتا۔ نیز آیت میں اس کی عملِ شیطان والی وضاحت بھی اس کی دلیل ہے۔ یہ شیطان عداوت اور بغض پیدا کردیتا ہے اور اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتا ہے۔ سبل السلام میں ہے کہ ’’اور حق بات یہ ہے کہ اشیاء اصلا پاک ہیں ، اور کسی چیز کو حرام قرار دینے سے اس کا نجس ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ کیونکہ بھنگ حرام ہے لیکن پاک بھی۔ لیکن نجاست کو حرمت لازمی ہے ا سلیے ہر نجس چیز حرام تو ہے لیکن اس کے برعکس نہیں ۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ نجاست کا حکم یہ ہے کہ اسے ہر حل چھونا منع ہے۔ اس لیے کسی چیز کو نجس قرار دینا اس پر حرام ہونے کا حکم لگانے کے مترادف ہے، برخلاف تحریم کا حکم لگانے کے۔بلا شبہ ریشم اور سونا پہننا حرام ہے اور یہ شرعی ضرورت اور اجماعی طور پر پاک بھی ہے۔ جب آپ کو اس کا علم ہوگیا تو شراب کی حرمت کہ جس پر نصوص دلالت کرتی ہیں اس سے اس کی نجاست لازم نہیں آتی۔ بلکہ اس کے کسی اور دلیل کے بنا چارہ نہیں ہے۔ وگرنہ یہ دونوں طہارت کے متفقہ اصول پر باقی رہیں گے۔ سو جواس کے خلاف دعوی کرے گا، دلیل اسی کے ذمہ ہے۔‘‘
کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ کتے کے نجس ہونے کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف ہے۔ مالکی اور ظاہری فقہاء کتے کی نجاست کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ احناف کے نزدیک اس کا لعاب وغیرہ ناپاک ہے جسم نہیں ۔ جبکہ جمہور اس کے نجس العین ہونے کے قائل ہیں ۔ ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ نے کتے کے پاک ہونے پر باقاعدہ ’’رسالۃ فی طہارۃ الکلب‘‘ نامی کتابچہ بھی تحریر کیا ہے۔
۱۳۔ کتا:
یہ بھی نجس ہے اور جس چیز میں یہ منہ ڈال دے اسے سات مرتبہ دھونا ضروری ہے، ان