کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 35
بیان کیے ہیں کہ ’’ یہ نجس ہے ، یہ گدھے کا گوبر ہے۔‘‘ اگر یہ کم مقدار میں ہو پھر اس سے معافی ہے کیونکہ اس سے بچنا مشکل ہے۔ ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے اوزاعی کو کہا کہ ’’تو وہ جانور کہ جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا مثلا خچر، گدھا اور گھوڑا (ان کے فضلہ کا کیا حکم ہے)؟ کیا گھوڑا حلال جانور ہے؟ اس بارے میں فریقین کے دلائل کا جائزہ لیجئے۔ کہنے لگے کہ ’’انھیں اپنے غزوات میں ان سے واسطہ پڑتا تھا لیکن وہ اپنے جسم اور کپڑوں سے اسے دھویا نہیں کرتے تھے۔‘‘ جہاں تک ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کا تعلق ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے تو مالک، احمد اور شافعی فقہاء کی ایک جماعت اس کے پاک ہونے کے ہیں ۔ ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی اس کے نجس ہونے کا قائل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے نجس ہونے کا قول نیا ہے، صحابہ میں اس کا قائل نہیں گزرا(ان کی بات مکمل ہوئی)۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ آئے تو مدینہ کی آب و ہوا انھیں ناموافق ہوئی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اونٹنیوں اور ان کے پیشاب اور دودھ پینے کی تلقین کی۔‘‘ رواہ احمد والشیخان۔ یہ حدیث اونٹوں کے پیشاب کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر ماکول اللحم جانوروں کو اس پر قیاس کیا جائے گا۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ ’’ جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ انھی لوگوں کے ساتھ خاص تھا تو وہ درست بات کو نہیں پہنچا۔ کیونکہ خصوصیات کسی دلیل کے ساتھ ہی ثابت ہوتی ہیں ۔ مزید کہتے ہیں کہ ’’ اہل علم کا بکریوں کی مینگنیوں کو مارکیٹوں میں فروخت ہوتے چھوڑنا اور اونٹ کے پیشاب کو اپنی دواؤں میں پہلے اور بعد میں بغیر تنقید کے استعمال ہوتے چھوڑنا، اس کے پاک ہونے کی دلیل ہے۔ شوکانی کہتے ہیں کہ ’’ واضح بات یہ ہے کہ ہر وہ جانور کہ جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کا پیشاب اور لید پاک ہے، اصل کو لیتے ہوئے، اور براء ت اصلیہ کے استصحاب کو دلیل بناتے ہوئے۔ اس لیے کسی دعوے دار کو قول کسی ایسی دلیل کے بغیر نہیں مانا جائے گا جو ان دونوں کو دوسرے حکم میں بدل دینے کے لائق ہو۔ لیکن ہم نے نجاست کے