کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 33
کی وجہ سے غسل کیا جاتا ہے۔ اور مذی و ودی میں اچھی طرح پاکی حاصل کی جاتی۔‘‘ رواہ الاثرم والبیہقی۔ اور بیہقی کے الفاظ ہیں کہ ’’ جہاں تک ودی اور مذی کا تعلق ہے تو آپ نے فرمایا کہ ’’ اپنے شرم گاہ کو دھوئیے(ذکر یا مذاکیر کے الفاظ میں راوی کو شک ہے)۔اور نماز جیسا وضو کیجئے۔‘‘
۸۔ مذی:
یہ سفید، لیس دار پانی ہے جو جماع کے بارے میں سوچ وبچار یا فارپلے کے وقت نکلتا ہے۔ کبھی انسان کو اس کے نکلنے کا علم ہی نہیں ہوتا۔ یہ مرد اور عورت دونوں سے نکلتا ہے البتہ عورت سے اکثر طور پر۔ اس کے نجس ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ جب یہ جسم کو لگے تو اسے دھونا ضروری ہے اور کپڑوں کو لگے تو اس پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی ہے۔ کیونکہ یہ ایسی نجاست ہے کہ جس سے بچنا مشقت کا باعث ہے کیونکہ یہ کنوارے نوجوانوں کے کپڑوں کو اکثر لگ جاتا ہے۔ اس لیے یہ بچے کے پیشاب سے تخفیف کا زیادہ مستحق ہے۔ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ مجھے بہت زیادہ مذی کا مسئلہ تھا۔ تو میں نے ایک شخص کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کا کہا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میرے عقد میں تھی ۔ تو اس شخص نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ وضو کیجئے اور اپنی شرم گاہ کو دھو لیجئے۔‘‘ اسے بخاری وغیرہ نے بیان کیا ہے۔سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ مجھے مذی کی وجہ سے تنگی اور تکلیف کا سامنا تھا۔ اور میں اس وجہ سے ا کثر غسل کیا کرتا تھا تو میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ آپ کو اس سے وضو کافی ہوجائے گا۔‘‘ تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! اگر میرے کپڑوں کو یہ لگ جائے تو میں کیا کروں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ آپ پانی کا ایک چلو لیں اور اپنے کپڑے پر جہاں اسے دیکھیں کہ لگی ہے تو اس پر چھینٹے مار لیں تو یہ کفایت کرجائے گا۔‘‘ رواہ ابو داؤد وابن ماجہ والترمذی۔ اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس میں محمد بن اسحاق راوی ہے جو عن سے روایت بیان کرے تو ضعیف ہوتا ہے، کیونکہ وہ مدلس ہے۔ لیکن یہاں حدثنا کی