کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 32
فرق نہ کرنا درست نہیں ہے۔ ان اشیاء کی نجاست اتفاقی ہے، البتہ قے تھوڑی مقدار میں ہو تو معافی ہے۔ اور وہ بچہ کہ جو کھانا نہ کھاتا ہو تو اس کے پیشاب میں بھی تخفیف ہے۔ تو اس صورت میں اس کی تطہیر کے لیے چھینٹے مار لینا کافی ہے۔ اس کی دلیل ام قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ ’’وہ اپنے بیٹے کو جو ابھی کھانا کھانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئیں ۔ اور ان کے اس بیٹے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کردیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑے پر چھینٹے مار لیے اور اسے دھویا نہیں ۔‘‘ متفق علیہ۔ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں گے جبکہ بچی کے پیشاب کو دھویا جائے گا۔‘‘ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ اس وقت تک ہے جب تک وہ دونوں کھانا نہ کھائیں ۔ کیونکہ اگر وہ کھانا کھانے لگیں تو ان کے پیشاب کو دھویا جائے گا۔‘‘ رواہ احمد واصحاب السنن إلا النسائی۔ اور یہ الفاظ احمد کے ہیں ۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔ نیز چھینٹے تب تک کفایت کریں گے جب تک بچا دودھ پر اکتفا کررہا ہو۔ لیکن جب وہ غذا کے طور پر کھانا کھانے لگے تو بالاتفاق اسے دھویا جائے گا۔ چھینٹوں پر اکتفاء کی رخصت کا سبب شاید یہ ہے کہ لوگ بچے کو اٹھانے کے شوقین ہوتے ہیں جو بچے کے عموما ان پر پیشاب اور کپڑوں کو دھونے کی مشقت پر منتج ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں تخفیف کردی گئی۔ ۷۔ ودی: یہ سفید اور گاڑھا پانی ہوتا ہے جو پیشاب کے بعد خارج ہوتا ہے۔ یہ بغیر اختلاف کے نجس ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ’’ جہاں تک ودی کا تعلق ہے تو یہ پیشاب کے بعد نکلتی ہے تو پھر وہ شرم گاہ اور خصیتین کو دھوئے گا اور وضو کرے گا ۔ غسل نہیں کرے گا۔‘‘ رواہ ابن المنذر۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’ منی، ودی اور مذی۔ جہاں تک منی کا تعلق ہے تو اس