کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 31
بٹنا جائز ہے۔
آدمی کی قے کے نجس ہونے پر اتفاق نہیں ہے، بلکہ ابن حزم اور امام شوکانی وغیرہ اس کے پاک ہونے کے قائل ہیں ۔
۴ ،۵ ،۶ : آدمی کی قے، پیشاب اور پاخانہ:
تمام المنہ میں شیخ البانی نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ انسان اور ماکول اللحم جانور کا خون نجس نہیں ہیں ۔ اس کے دلائل یہ ہیں :
ابو داود میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک غزوہ کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی کو تیر لگ گیا لیکن اس نے علم ہونے کے باوجود نماز ختم نہیں کی۔ اور یقینا یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچی ہوگی لیکن ضرورت کے اس موقع پر آپ کی خاموشی سے واضح ہوتا ہے کہ خون نجس نہیں ہے۔ حدیث یہ ہے:
(( فَرَمَاہُ بِسَہْمٍ فَوَضَعَہُ فِیہِ فَنَزَعَہُ، حَتّٰی رَمَاہُ بِثَلَاثَۃِ اَسْہُمٍ، ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْتَبَہَ صَاحِبُہُ، فَلَمَّا عَرَفَ اَنَّہُمْ قَدْ نَذِرُوا بِہِ ہَرَبَ، وَلَمَّا رَاَی الْمُہَاجِرِیُّ مَا بِالْاَنْصَارِیِّ مِنَ الدَّمِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ اَلَا اَنْبَہْتَنِی اَوَّلَ مَا رَمَی، قَالَ: کُنْتَ فِی سُورَۃٍ اَقْرَؤُہَا فَلَمْ اُحِبَّ اَنْ اَقْطَعَہَا۔))
اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے اونٹ ذبح کیا تو اس کا خون اور گوبر آپ کو لگا، آپ نے اسی حالت میں نماز پڑھی:
(( عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِیِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَیْمَانَ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ: نَحَرَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَزُورًا فَتَلَطَّخَ بِدَمِہَا وَفَرْثِہَا، ثُمَّ اُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَصَلَّی وَلَمْ یَتَوَضَّاْ))
نیز خون کا پاک ہونا اپنی اصل پر باقی ہے۔ اور اصلا ہر چیز پاک ہوتی ہے جب تک کہ اس کے ناپاک ہونے دلیل نہ آجائے۔ اس لیے مصنف کا حیض کے خون اور عام خون میں