کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 3
﴿وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo﴾ (سبا: 28)
’’ اور ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔‘‘
اور اسی طرح فرمایا کہ
﴿قُلْ یٰٓا أَ یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ نِ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَo﴾ (الأعراف: 158)
’’ کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے۔‘‘
اور صحیح حدیث میں ہے کہ ’’نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا جبکہ مجھے ہر سیاہ وسرخ کی طرف بھیجا گیا ہے۔‘‘
اور وہ دلائل جو اس دین کی عمومیت و آفاقیت کی مزید تائید کرتے ہیں ، ذیل میں ہیں :
۱۔ اس دین میں ایسا حکم نہیں ہے کہ جس کا اعتقاد لوگوں پر مشکل ہو، یا اس پر عمل کرنا ان پر گراں ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ:286)
’’ اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ۔‘‘
اور مزید فرمایا کہ