کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 29
مردار ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مردار کا کھانا حرام ہے۔‘‘ رواہ الجماعۃ۔ البتہ ابن ماجہ نے اس حدیث کے بارے میں ’’عن میمونۃ‘‘ کہا ہے۔ نیز بخاری اور نسائی میں دباغت کا ذکر نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے اس آیت کو پڑھا ’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مُردار ہو۔۔۔الخ‘‘ اور فرمایا کہ اس میں وہ چیز حرام ہے جو کھائی جاتی ہے ۔ اور وہ گوشت ہے۔ باقی رہا چمڑا اور چمڑے کا برتن ، اسی دانت، ہٹی، بال اور اون تو وہ حلال ہے۔‘‘ اسے ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح مر دار کا انفحہ اور اس کا دودھ بھی پاک ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب عراق کے شہروں کو فتح کیا تو مجوسیوں کی پنیر کھائی تھی اور وہ انفحہ سے بنائی جاتی ہے، حالانکہ مجوسیوں کے ذبیحہ کو مر دار سمجھا جاتا ہے۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ ان سے پنیر، گھی اور پوشاک کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا جبکہ حرام وہ ہے جسے اس نے اپنی کتاب میں حرام قرار دے دیا۔ اور جس سے اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی ہے تو یہ ایسے مسائل ہیں جن سے اس نے درگزر فرمایا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ان سے سوال مجوسیوں کی پنیر کے بارے میں کیا گیا تھا جبکہ سلمان عمر بن خطاب کے مدائن پر نائب تھے۔
۲۔ خون:
خواہ دم مسفوح یعنی بہایا جانے والا خون ہو، مثلاً وہ خون کہ جو ذبح کیے ہوئے جانورسے نکلتا ہے، یا حیض کا خون ہو۔ البتہ اگر اس کی مقدار کم ہو تو پھر معافی ہے۔ ابن جریج سے اللہ تعالیٰ کے اس فرما ن کہ ’’ یا بہایا جانے والا خون ہو‘‘ کے بارے میں مرو ی ہے کہتے ہیں کہ مسفوح سے مراد وہ خون ہے جو بہایا جائے۔ اور جو خون رگوں میں بچ جاتا ہے ۔ اسے ابن منذر نے بیان کیا ہے۔ اور ابو مجلز سے اس خون کے بارے میں جو مذبح میں یا ہنڈیا کے