کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 28
قطنی۔ حدیث ضعیف ہے لیکن امام احمد نے اسے موقوفا صحیح قرار دیا ہے۔ نیز اسی بات کے ابو زرعہ اور ابو حاتم قائل ہیں ۔ اور اس جیسی روایت کا حکم مرفوع والا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ صحابی جب یہ کہے کہ ’’ ہمارے لیے فلاں چیز حلال کی گئی ہے ‘‘اور ’’فلاں ہم پر حرام کی گئی ہے‘‘ تو یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے وہ کہے کہ ’’ہمیں حکم دیا گیا ہے ‘‘ اور ’’ہمیں منع کیا گیا ہے‘‘۔ اور سمندر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گزر چکا ہے کہ ’’ اس کا پانی پاک کرنے والا اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
ب: وہ مردار کہ جس کا بہنے والا خون نہ ہو مثلا چیونٹی اور شہد کی مکھی وغیرہ۔ کیونکہ وہ پاک ہوتی ہے، جب وہ کسی چیز میں گر جائے اور اسی میں مر جائے تو اسے نجس نہیں کرتی۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ مجھے مذکورہ چیز کی طہارت میں اختلاف کا علم نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی سے جو مروی ہے، ان کا مشہور مسلک ہے کہ یہ نجس ہے۔ اور جب یہ کسی مائع چیز میں گر جائیں اور اسے نہ بدلیں تو پھر معافی ہوگی۔
مردار کے چمڑے کی نجاست پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلالت کررہا ہے:
((عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَقُولُ: ((إِذَا دُبِغَ الْإِہَابُ فَقَدْ طَہُرَ۔))
ج: مردار کی ہڈی، سینگ، ناخن، بال، پر اور جلد۔ اور ہر وہ چیز جو اس جنس کی ہے پاک ہے۔ کیونکہ ان تمام اشیاء کی اصل طہارت ہے۔ اور ان کی نجاست کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ زہری ہاتھی جیسے مردار جانوروں کی ہڈیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ میں نے سلف علماء میں لوگوں کو ان سے کنگی کرتے اور ان میں تیل ذخیرہ کرتے پایا۔ وہ اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔‘‘ رواہ البخاری۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کو بکری صدق کے طور پر دی گئی لیکن وہ مر گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے اور فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں نے اس کے چمڑے کو کیوں نہیں اتارا کہ اسے دباغت کرکے فائدہ اٹھاتے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو