کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 24
جہاں تک عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث کا تعلق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جب پانی دو قلے ہو تو وہ گندگی کو نہیں اٹھاتا۔ ‘‘ اسے خمسہ نے بیان کیا ہے۔ لیکن یہ سند اور متن کے اعتبار سے مضطرب ہے۔ ابن عبد البر نے تمہید میں کہا ہے کہ قلتین والی حدیث کے پیش نظر امام شافعی نے جس موقف کو اپنایا ہے وہ عقلی اعتبار سے کمزور اور نقلی اعتبار سے غیر ثابت ہے۔
جوٹھا
جوٹھے سے مراد وہ مشروب ہے جو پینے کے بعد بچ رہے۔ اس کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں :
۱۔ انسان کا جوٹھا:
یہ پاک ہے، خواہ مسلمان، غیر مسلم، جنبی اور حائضہ کا ہی ہو۔ باقی رہا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ
﴿ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ (التوبہ:۲۸)
’’سوائے اس کے نہیں مشرک تو نجس ہیں ۔‘‘
تو اس سے مراد ان کی ان کے باطل عقیدے کے لحاظ سے اور ان کے گندگیوں اور نجاستوں سے نہ بچنے کی وجہ سے معنوی نجاست ہے۔ یہ نہیں کہ وہ خود اور ان کے جسم نجس ہیں ۔ وہ مسلمانوں سے ملتے اور ان کے پیغامبر اور وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور وہ مسجد نبوی میں داخل ہوتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کو دھونے کی تلقین نہیں فرمائی جہاں ان کے جسم لگے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ ’’ میں حیض کی حالت میں کچھ پیتی اور برتن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دیتی تو آپ اپنا منہ وہاں لگاتے جہاں میں نے لگایا ہوتا۔‘‘ اسے مسلم نے بیان کیا ہے۔
۲۔ اس جانور کا جوٹھا جس کا گوشت کھایا جاتا ہے:
کیا آپ جانتے ہیں کہ جابر نام کے ایک سے زائد صحابہ ہیں ۔ کتب رجال میں تلاش ک