کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 23
برتن ٹب تھا کہ جس میں آٹے کے نشانات تھے۔‘‘ مذکورہ دونوں احادیث میں پانی کا دوسری چیز کے ساتھ اختلاط پایا گیا ہے۔ مگر وہ اس حیثیت میں نہیں ہے کہ اس پر لفظ پانی کا اطلاق نہ کیا جاسکے۔ چوتھی قسم: وہ پانی کہ جس میں نجاست ملی ہو۔ اس کی دو شکلیں ہیں : اول: یہ کہ نجاست پانی کا ذائقہ، رنگ اور بو بدل دے۔ اس صورت میں اجماعی طور پر پاکی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات ابن منذر اور ابن ملقن نے نقل کی ہے۔ دوم: یہ کہ پانی اپنے اطلاق پر باقی ہو۔ وہ اس طرح کہ اس کے تین اوصاف میں سے کوئی نہ بدلا ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ پاک بھی ہے اور پاک کرنے والا بھی، خواہ کم ہو یا زیادہ۔ اس کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور اس نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ تو لوگ اس کی طرف بڑھے تاکہ اس پر ٹوٹ پڑیں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اسے چھوڑ دیجئے اور پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دیجئے۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ذنوبا من ماء ‘‘کے الفاظ بولے۔ کیونکہ آپ لوگوں کو آسانیاں پیدا کرنے والے بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ تنگی کرنے والے بنا کر۔‘‘ اسے مسلم کے علاوہ کئی محدثین نے بیان کیا ہے۔ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا ہم بضاعۃ کنویں سے وضو کرسکتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’’پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ ‘‘ اسے احمد، شافعی، ابو داؤد، نسائی اور ترمذی نے بیان کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن بھی کہا ہے۔ اور امام احمد کہتے ہیں کہ ’’بضاعۃ کنویں والی حدیث صحیح ہے، اسے یحییٰ بن معین اور ابو محمد بن حزم نے صحیح کہا ہے۔‘‘ یہ موقف ابن عباس، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم ، حسن بسری، ابن مسیب، عکرمہ، ابن ابی لیلی، ثوری، داؤد ظاہری، نخعی اور امام مالک وغیرہ کا ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ میری چاہت ہے کہ کاش پانی کے حوالے سے امام شافعی کا مسلک بھی امام مالک کی طرح کا ہوتا۔