کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 22
داڑھی میں نمی پائی تو اس کے لیے اس نمی کے ساتھ سر کا مسح کرلینا کافی ہے۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ یہ اصحاب ماء مستعمل کو مطہر سمجھتے تھے۔ اور میں بھی اسی بات کا قائل ہوں ۔ امام مالک، شافعی کا بھی ایک روایت کے مطابق ، یہی موقف تھا۔ اور ابن حزم نے یہ موقف سفیان الثوری، ابو ثور اور تمام اہل ظواہر کی طرف اسے منسوب کیا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا نام نسیبہ بنت کعب ہے، آپ بہت سمجھ دار خاتون تھیں ، سات غزوات میں شریک ہوئیں اور مجاہدین کا کھانا تیار کرنے میں مدد فراہم کیا کرتی تھی۔ آپ سے کئی ایک احادیث مروی ہیں ۔ محمد بن سیرین جیسے جلیل القدر افراد آپ کے شاگرد ہیں ۔ آپ ۷۰ ہجری کی دھائی میں فوت ہوئیں ۔ تیسری قسم: وہ پانی کہ جس میں طاہر چیز ملی ہو۔ مثلا صابن، زعفران اور آٹا وغیرہ۔ یعنی وہ اشیاء وہ پانی سے عموما الگ ہوتی ہیں ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ بھی پاک ہے تاوقتیکہ اپنے اطلاق کی حفاظت کرنے والا ہو۔ اس لیے اگر یہ اپنے اطلاق سے اس حیثیت سے نکل جائے کہ اس پر عام پانی کا نام نہ بولا جاسکے تو فی نفسہ تو یہ پاک ہو لیکن دوسری چیز کو پاک کرنے والا نہیں ہوگا۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب فوت ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ’’ اسے تین، پانچ یا اگر آپ چاہیں تو زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے ساتھ غسل دیجئے۔ اور آخر میں کافور یا کافور کا کچھ حصہ ڈال دیجئے گا۔ اور جب آپ فارغ ہوجائیں تو مجھے بتا دیجئے گا۔‘‘ تو جب ہم فارغ ہوئیں تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنا ازار دیا اور فرمایا کہ’’ اسے اس کا شعار بنا دیجئے۔‘‘ ام عطیہ کی مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازار سے تھی۔‘‘ اس کئی ایک محدثین نے بیان کیا ہے۔ میت کو اسی چیز کے لیے غسل دیا جاتا ہے کہ جس کے ساتھ زندہ کی تطہیر درست ہوتی ہے۔ احمد، نسائی، ابن خزیمہ میں ام ھانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک ہی برتن سے غسل کیا۔ وہ