کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 21
ہے۔ اس مسئلہ میں یہ بات اصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ ہر وہ پانی جسے ہر قید سے ماوراء رکھا جائے اس کے ساتھ پاکیزگی حاصل کرنا درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: ’’تو اگر تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کرو۔‘‘ (المائدہ :۶) دوسری قسم: ماء مستعمل: اس سے مراد وہ پانی ہے وہ وضو یا غسل کرنے والے شخص کے اعضاء سے جدا ہوا ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ ماء مطلق کی طرح پاک کرنے والا ہے، بالکل برابر برابر، اصل کا اعتبار کرتے ہوئے کیونکہ اصلا یہ پاک کرنے والا تھا۔ اور ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ جو اسے اس کی پاکیزگی سے نکال دے۔ کیونکہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے طریقہ کے بارے میں مروی ہے ، کہتی ہیں کہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں میں بچے ہوئے پانی سے سر کا مسح کیا۔‘‘ رواہ أحمد و أبو داؤد۔ اور ابو داؤد کے الفاظ ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اس پانی سے کیا جو آپ کے ہاتھوں سے بچا ہوا تھا۔‘‘ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مدینہ کی کسی گلی میں ملے جبکہ وہ (یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)جنابت کی حالت میں تھے، اس لیے وہاں سے کھسک گئے اور چل دئیے۔ پھر غسل کرنے کے بعد آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ’’ ابو ہریرہ کہاں تھے؟‘‘ تو انہیں نے جواب دیا کہ میں جنبی تھا اس لیے میں نے یہ بات ناپسند کی غیر طاہر ہوتے ہوئے آپ کی مجلس اختیار کروں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ سبحان اللہ مؤمن نجس نہیں ہوتا۔‘‘ رواہ الجماعۃ اس روایت سے استدلال اس طرح ہے کہ جب مؤمن ناپاک نہیں ہوتا تو پھر صرف پانی کو چھو لینے سے ہی اسے پاکیزگی گم کردینے والا قرار دے دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں زیادہ سے زیادہ یہ معاملہ ہوا کہ ایک پاک چیز نے دوسری پاک چیز کو چھو لیا اور اس کا اثر نہیں ہوتا۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ علی، ابن عمر، ابو امامہ رضی اللہ عنہم اور اسی طرح عطاء، حسن، مکحول اور نخعی سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص سر کا مسح کرنا بھول گیا پھر اس نے اپنے