کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 15
دل کے لیے فساد کا ذریعہ بن گئی اور وقت کے ضیاع کا باعث قرار پائی۔ اللہ کے دین کے معاملے میں سود مند ہوتی اور نہ ہی لوگوں کی زندگی کو منظم کرنے میں ۔
اس مثال کو کچھ متأخر فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ ابن عرفہ نے إجارۃ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ منفعت کی تجارت ہے کہ جسے منتقل کرنا ممکن ہو۔ البتہ کشتی اور حیوان اس سے مستثنی ہیں … تو اس پر ان کے ایک شاگرد نے اعتراض کیا کہ لفظ بعض اختصار کے منافی ہے۔ اور اسے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تو شیخ نے دو دن تک توقف کیا پھر ایسا جواب دیا کہ جس کی اس ضمن میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اس حد تک قانون سازی رک گئی اور علماء بھی رک گئے انھیں متن کے علاوہ کچھ یاد نہ ہوتا اور وہ حواشی اور جو تنقید، اعتراضات اور معمے اس میں ہوتے ان کے علاوہ انھیں کسی چیز کی پہچان نہ ہوتی۔ نیز جو تشریحات ان پر لکھی گئی ہوتیں انھیں محض انھی کی معرفت ہوتی۔ حتی کہ یورپ مشرق پر ٹوٹ پڑا وہ اسے اپنے ہاتھ سے تھپڑ مار اور اپنے پاؤں کی ٹھوکر مار رہا تھا۔ تو ہوا یہ کہ وہ اس سے امت کی آنکھ کھل گئی اور وہ دائیں بائیں دیکھنے لگی لیکن وہ زندگی کے گھسٹنے والے قافلے سے پیچھے رہ چکا تھا اور بیٹھا ہوا تھا کہ جبکہ قافلہ چل رہا تھا۔ اچانک وہ ایک نئے جہان کے سامنے تھا، بالکل نیا زندگی، طاقت اور پیدوار۔ تو جو اس نے دیکھا اس نے اسے مرعوب کردیا۔
اور جو اس نے مشاہدہ کیا اس نے اسے خیرہ کردیا۔ تو وہ لوگ جو اپنی تاریخ سے اجنبی تھے اور جنھوں نے اپنے آباء کی نافرمانی کی تھی، اور اپنے طورو اطوار بھول چکے تھے چیخ اٹھے کہ اے مشرقیو! یہ یورپ ہے، اس کے رستے پر چلو اور اچھا ہو یا برا، ایمان والا ہو یا کفر والا، میٹھا ہو یا کڑوا ہر کام میں ان کی تقلید کرو۔ جبکہ جامد لوگ عدم تعاون کے طور پر رک گئے اور لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ اور إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون کا ورد کثرت سے کرنے لگے۔ اور اپنے آپ لپٹ گئے، اپنے گھروں کو انھوں نے اپنے اوپر لازم کرلیا۔ تو دھوکہ میں پڑے ہوئے لوگوں کے یہاں یہ اس بات کی ایک اور دلیل تھی کہ اسلامی شریعت ترقی کا ساتھ نہیں چل سکتی اور