کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 13
کی پیروہ نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کی جائے۔ بلکہ ان کی چاہت یہ تھی کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے فہم میں مدد فراہم کریں ۔ مگر ہوا یہ کہ ان کے بعد لوگوں کی ہمت مضمحل ہوگئی اور ان کے عزائم کمزور پڑگئے۔ اور ان میں نقل و تقلید کے جذبہ نے تحریک پکڑی۔ اس لیے ہر جماعت ایک خاص مسلک کی طرف ہی نظر کرتی اور اسی پر تکیہ کرتی اور اسی پر تعصب اختیار کرتی۔ اور اسی مسلک کی تائید میں اتنی قوت خرچ کرتی جتنی اسے میسر ہوتی۔ اور اپنے امام کے قول کو شارع کے قول کا درجہ پر اتارتی اور اگر کسی مسئلہ میں اس کے امام نے استنباط کیا ہوتا تو اس کے مخالف فتوی دینے کو اپنے لیے جائز خیال نہ کرتی۔ اور ان ائمہ کو قابل اعتماد قرار دینے میں وہ غلو کی حد تک جاپہنچی حتی کہ کرخی نے یہ تک کہہ دیا کہ ہر آیت یا حدیث جو اس موقف کے مخالف ہو کہ جس پر ہمارے اصحاب ہیں تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اسے منسوخ قرار دیا جائے گا۔ مسلکی تقلید و تعصب کی وجہ سے امت نے کتاب وسنت سے رہنمائی لینے کو چھوڑ دیا۔ اور اجتہاد کا دروازہ بندہونے کا قول وجود میں آیا اور شریعت فقہاء کے اقوال اور فقہاء کے اقوال شریعت قرار پائی۔ اور ہر اس شخص کو بدعتی گردانا گیا جو فقہاء کے اقوال سے نکل جاتا اور اس کے فتاوجات کو کوئی حیثیت نہ دی جاتی۔ اس قدیم روح کو پھیلانے میں جو چیز معاون ہوئی وہ حکمرانوں اور اغنیاء کا مدارس بنانا ہے۔ ان مدارس میں تدریس کو کسی ایک مسلک یا خاص مسالک کی تعلیم میں بند کردیا گیا۔ یہ چیز ان مسالک کی طرف متوجہ ہونے اور اجتہاد سے دور ہونے کے اسباب میں سے ہے۔ تاکہ ان تنخواہوں کو بچایا جاسکے جو ان کے لیے مقرر کی گئی تھیں ۔ ابو زرعہ نے اپنے استاذ بلقینی سے یہ کہتے ہوئے پوچھا کہ تقی الدین سبکی کو اجتہاد سے کس چیز نے روکا حالانکہ ان کے پاس اس کی صلاحیت ہے؟ تو بلقینی خاموش ہوگئے۔ تو ابو زرعہ نے کہا کہ میرے خیال میں اجتہاد سے رکھنے کی وجہ صرف وہ وظائف ہیں جو مذاہب اربعہ پر بند رہنے کے لیے فقہاء کے لیے مقرر کئے گئے ہیں ۔ اور جو اس مجال سے نکلا اسے وظائف سے کچھ نہیں ملے گا۔ اور اسے قضا