کتاب: فقہ السنہ - صفحہ 12
’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کتاب کے بارے میں اختلاف کیا وہ یقینی طور پر دور کی بد بختی میں ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo﴾ (النساء: 65) ’’قسم ہے تیرے رب کی! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک آپ سے اس کا فیصلہ نہ کروائیں جو ان میں اختلاف ہوا ہے۔ پھر وہ اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں جس کا تو نے فیصلہ کیا ہے اور وہ اسے اچھی طرح تسلیم کرلیں ۔‘‘ ان قواعد کی روشنی میں صحابہ اور ان صدیوں کے لوگ چلے جن کے بارے میں خیر کی گواہی دی گئی تھی۔ اور ان کے مابین اختلاف صرف چند ایک مسائل میں ہوا۔ جس کی وجہ نصوص کے فہم میں مختلف ذہن والا ہونا تھا۔ اور کچھ لوگ ان نصوص سے واقف تھے جو دیگر سے مخفی تھیں ۔ تو جب مذاہب اربعہ کے ائمہ آئے تو انھوں نے اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی اتباع کی البتہ ان میں سے کچھ سنت کے زیادہ قریب تھے مثلا اہل حجاز کہ جن میں سنت کے حاملین اورآثار کے راوی زیادہ تھے۔ جب کہ باقی کے کچھ رائے زیادہ قریب تھے جیسے اہل عراق کہ جن میں حدیث کو یاد کرنے والے کم تھے کیونکہ ان کے گھر وحی کے نازل ہونے کی جگہ سے دور تھے۔ ان ائمہ نے اپنے انتہائی کوشش لوگوں کو اس دین سے مانوس کرنے اور ان کی اس کے ساتھ رہنمائی کرنے میں صرف کی۔ وہ انھیں اپنی تقلید سے منع کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کسی کے لیے ہمارے بات کا قائل ہونا جائز نہیں ہے تاوقتیکہ وہ ہماری دلیل کو پہچان نہ لے۔ اور انھوں نے وضاحت کی کہ ان کا مسلک صحیح حدیث ہے۔ کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان