کتاب: فکری امن اسلام میں اس کی اہمیت ، کردار اور ثمرات - صفحہ 47
ہے۔ اسی کے ذریعے اس امت کو تمام جہانوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾ (آل عمران: 110) ’’تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴾ (الحج: 41) ’’وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔‘‘ کیونکہ دعوت اور احتساب کا دین میں انتہائی اہم ترین مرتبہ اور مقام ہے۔ اس لیے شریعت نے اسے ایک اعزاز تصور کیا ہے اور اس کے ضوابط اور قوانین مقرر فرمائے ہیں جن کی بنیاد پر مصالح کبریٰ کا حصول ممکن ہے جن میں اہم ترین اخلاص، علم، اخلاق، نرمی، بردباری، سنجیدگی اور بہترین اسلوب ہے۔ جب یہ نعمت حاصل ہوتی ہے تو دعوت و احتساب کا پھل حفظ و امان اور فکری امن کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کیونکہ دعاۃ اور محتسبین ایک انتہائی اہم ذمہ داری کو ادا کر رہے ہوتے ہیں جو کہ لوگوں کو دنیا اور آخرت کے لحاظ سے خیر اور بھلائی کی طرف بلانا اور اس کے مخالف ہر چیز سے ڈرانا ہے۔ ان میں سے ایک فکری انحراف ہے جو افراط اور تفریط کی شکل میں ہے۔ جو شخص مکاتب دعوۃ اور احتساب کے مکاتب میں کی جانے والی کوششوں سے واقف ہو تو اسے پتہ چلے گا کہ دعاۃ اور محتسبـین امت کے لیے فکری امن کی حفاظت پر کس قدر