کتاب: فکری امن اسلام میں اس کی اہمیت ، کردار اور ثمرات - صفحہ 44
نئے پیش آمدہ مسائل اور آفات و مشکلات میں امراء اور علماء کی اطاعت، ان کی طرف رجوع اور ان کے علم و فہم سے استفادہ کرنا ہی اجتماعی امن کی تمام فروعات کے قیام کا سبب ہے جس میں سب سے پہلے فکری امن ہے جو فرد اور معاشرہ کی ضرورت ہے۔
اسی کے ذریعے ہی امت کی وحدت اور حکومت کا استقرار ہے، اور اس کی بناء پر ہی تعمیر و ترقی اور نشوونما کے مواقع میسر آتے ہیں ۔
اسی اہم ترین مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تمام مسلمان اپنے امراء اور اولیاء الامور کی ہر حال اور ہر لحاظ سے اطاعت کریں ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمہارے اوپر کسی حبشی کو ہی حکمران کیوں نہ بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو۔‘‘ [1]
شیخ عبدالرحمان سعدی رحمہ اللہ [2] درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
﴿ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ﴾ (النساء: 83)
’’اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کر دیتے ہیں ۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ان کے اس غیر لائق فعل پر سرزنش ہے اور یہ کہ ان کو چاہیے تھا کہ جب ان کے سامنے اس طرح کا اہم معاملہ ہو، اس کا تعلق مصلحت عامہ یا امن سے ہو، مومنوں کے امن و سکون یا پھر خوف کے متعلق ہو جس میں ان کے لیے پریشانی ہے تو وہ ثابت قدم رہیں اور اس خبر کی اشاعت میں جلدی نہ کریں ۔ بلکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائیں یا پھر حکمرانوں اور اہل علم، اہل عقل و دانش اور تجربہ کار لوگوں کی طرف لوٹائیں جو ان امور کی معرفت کے ساتھ ساتھ مصلحت عامہ اور اس کے مخالف امور پر نظر
[1] بخاری، کتاب الأذان، باب امامۃ العبد والمولی: 693۔ وکتاب الأحکام: 7142۔
[2] الشیخ ابو عبداللہ عبدالرحمن بن ناصر سعدی، تمیمی، عنیزہ قصیم میں 12 محرم 1307ھ کو پیدا ہوئے، اور 1376ھ کو عنبزہ میں ہی فوت ہوئے۔