کتاب: فکری امن اسلام میں اس کی اہمیت ، کردار اور ثمرات - صفحہ 42
اس کے متعلق چند باتیں غیر مسلموں سے مشابہت سے بچنے کے باب میں ذکر کی ہیں اور یہ کہ غیر مسلموں سے مشابہت کا لوگوں کے رویوں اور ان کی زندگی سے گہرا واسطہ ہے۔ [1] (5)… اعتدال اور میانہ روی ہمارے ملکوں میں امن و استقرار کو بحال رکھنے کے لیے دین میں میانہ روی اور اعتدال کو اپنانا اور افراط و تفریط سے دور رہنا لازم ہے۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ میانہ روی اور اعتدال دین اسلام کی خصوصیات میں سے ہے اور یہ امت اسلامیہ کے لیے شرف و اعلیٰ مقام کی علامت ہے۔ اعتدال اور میانہ روی کی اہم خصوصیات میں سے اہم ترین امن و امان ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے میانہ روی اور اعتدال پر سکون معاشرے کا باعث ہے جبکہ افراط و تفریط اور شدت خطرہ اور فساد کو جنم دیتی ہے۔ میانہ روی اپنے ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کا باعث ہے۔ میانہ روی اور اعتدال جہاں امن و سکون کا باعث ہے وہاں قوت و طاقت کا بھی ذریعہ ہے، اعتدال قوت کا مرکز ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نوجوانی قوت کا مرکز ہے جو کہ بڑھاپے اور بچپن کی درمیانی عمر ہے۔ اسی طرح سورج جب دن کے وسط میں ہوتا ہے تو دن کے شروع اور آخر کی بجائے انتہائی قوت والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ﴾ (البقرۃ: 143) ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس امت کی پہچان اور امتوں کے درمیان اس کا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے۔ جس میں افراط و تفریط، ناکامی و کم ہمتی، سستی، غلو اور شدت نہیں ہے۔ اس امت کے ہر کام میں میانہ روی اور اعتدال ہے۔ جب اسلام میانہ روی اور اعتدال کا درس دیتا ہے، تو پھر ہر اس چیز سے دور رہنے کا بھی
[1] اقتضاء الصراط المستقیم: 79/1۔