کتاب: فکری امن اسلام میں اس کی اہمیت ، کردار اور ثمرات - صفحہ 27
چوتھی بحث : ’’فکری امن‘‘ کے قیام کے لیے وسائل یہاں چند ایسے امور کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو ’’فکری امن‘‘ کے قیام کے لیے بطور وسائل ذکر کیے جا سکتے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے راہنمائی لینا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم پکڑنا۔ اصل میں یہ حقیقی امن ہے۔ یہی وہ خیر ہے کہ جس کی طرف اس ملک کے حکمران مائل ہیں اور یہاں کے سیکورٹی اداروں کے افراد اسی کوشش میں لگے ہیں الحمدللہ، اور ہر غیرت مند مسلمان اسی کا پہرہ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ﴾ (الانعام: 82) ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے نہیں ملایا تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘ 2۔ صحیح ترین اجتماعی ترقی جو دین حنیف کے مزاج کے عین مطابق ہو اور معاشرہ اپنی عادات اور تقالید میں کبھی بھی اس کی مخالفت نہ کرے اور ایسی اقدار ہوں جو شریعت کے مخالف نہ ہوں ۔ 3۔ مطبوعات اور ذرائع ابلاغ (میڈیا) کے لیے قواعد و ضوابط مقرر کرنا۔ 4۔ تمام حکام اور علماء کو اس کی دعوت دینا، سیاسی، فکری، علمی اور ثقافتی میدان کے دانشوروں کو اس کا قائل کرنا۔ ہر ادیب مفکر، عالم اور علم و معرفت کے ہر ماہر کو اس کی اہمیت کا احساس دلانا۔ خاص طور پر ایسے علمائے دین تیار کرنا جو الحاد، غلو، دہشت گردی، شدت پسندی، افراط و تفریط اور جہالت کے خلاف جنگ کریں ، اور ہر فساد کے آگے بند